احتجاج کے روایتی طریقے لاحاصل؟

ہمارے ہاں احتجاج کے تمام تر رائج روایتی طریقے آزمائے گئے مگر کچھ ہاتھ نہ آیا‘ اگرچہ تعلیمی اداروں میں پہلے صرف بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر علامتی احتجاج کا طریق رائج تھا مگر رفتہ رفتہ ترقی یافتہ اقوام کی دیکھا دیکھی  میں ہم لوگ جب ترقی یافتہ کی بجائے پیش رفت یافتہ بنتے گئے تو تالہ بندی‘ قلم چھوڑ یعنی کام چھوڑ ہڑتال‘ ریلی‘ دھرنے اور روڈ بلاک کرنے کے طریقے بھی سامنے آئے اور آزمائے گئے مگر نتیجہ صفر ہی رہا‘اب ایک ایسے وقت میں جبکہ پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ9جنوری کو ہونے والے اعلانات پر عملدرآمد کی بڑی بے تابی سے منتظر ہیں مطلب صوبائی حکومت کی طرف سے جامعہ کو50 کروڑ روپے گرانٹ کا ملنا اساتذہ کی ترقیوں میں بلاوجہ تاخیر ختم ہو کر صوبے کے انتظامی سربراہ کی طرف سے نو ابجیکشن سرٹیفیکیٹ(NOC) دینے کا اعلان‘ جامعہ کیلئے میڈیکل کالج اور نرسنگ انسٹی ٹیوٹ کا قیام‘ یقینا کہ یہ سارے اعلانات کئے گئے بلکہ یہاں تک کہ عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں یونیورسٹی اساتذہ کو احتجاج کا ایک جدید طریقہ بھی سکھایا گیا مگر جو کچھ عملاً سامنے آیا وہ یہ ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین بے چارے ایک بار پھر ماہانہ پنشن سے اس لئے محروم ہوگئے کہ یونیورسٹی نے فروری کی تنخواہیں حسب سابق ایک ہفتہ کی تاخیر  سے ادا کرتے ہوئے ہاتھ کھڑے کر دیئے کہ باقیماندہ کوئی ٹکہ پیسہ نہیں‘ مطلب اکاؤنٹس کنگال پڑے ہیں‘ لہٰذا پنشن کی ادائیگی کہاں سے کی جائے؟ حالانکہ اٹل حقیقت یہ ہے کہ تنخواہ سے زیادہ  پنشن کی ادائیگی ضروری ہوگئی ہے کیونکہ تیس سال بلکہ بعض لوگوں کا اس سے بھی زیادہ عرصہ کام کرنے کا صلہ جب ٹھوکریں کھانے کی شکل میں ملتا رہے تو یقینا افسوسناک حالت ہوگی دراصل تعلیم کو کچلنے کی جو پالیسی گزشتہ دو عشروں سے مسلط ہے اس میں صوبے اور مرکز میں یکسانیت پائی جاتی ہے اس بابت ایک تلخ مگر ناقابل تردید حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیمی ترقی کااگر کوئی کام ہوا تو وہ غیر جمہوری یعنی سیاسی بڑوں کے بقول آمرانہ دور میں ہوا ہے‘مثال کے طور پر سال2002ء میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو تحلیل کرکے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے بعد پہلے چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمان کی قیادت میں تعلیمی ترقی کے جو کام ہوئے انہی کی بدولت ملک کی ایک آدھ یونیورسٹی کو چھوڑ کر باقی ماندہ جامعات کی حیثیت کالج سے یونیورسٹی میں تبدیل ہوگئی جیسے مثال کے طور پر پشاور کی انجینئرنگ یونیورسٹی جو کہ پشاور یونیورسٹی کے کالج سے بڑھ کر غالباً1980ء میں یونیورسٹی بن گئی لیکن درحقیقت انجنیئرنگ یونیورسٹی کافی عرصہ بعد اس وقت بن گئی جب سید امتیاز حسین گیلانی بارہ سال تک وائس چانسلر رہے‘ ان سطور میں کئی بار کہا گیا کہ سال تو بارہ مہینوں کا ہوتا ہے اگر پشاور یونیورسٹی اخراجات میں کمی لانے کی بجائے واجبات بڑھانے اور ضرورت سے کہیں کم حکومتی گرانٹ ملا کر ہر مہینے کی تنخواہ میں ہفتہ دو ہفتے کی تاخیر سے ادا کرتی رہے اور پنشن کیلئے کچھ ہاتھ میں نہ بچے تو چلنے کا یہ طریق تو یقینا ناقابل عمل ہوگا اب دیکھنا ہوگا کہ مارچ کی تنخواہ‘ پنشن اور متفرقہ اخراجات کا کیا بنے گا؟ یونیورسٹی ملازمین تو ویسے گزشتہ ایک عشرے سے ہمہ وقت احتجاج کے موڈ میں پائے جاتے ہیں تاہم9جنوری کے اعلانات پر عملدرآمد نہ ہونے کیخلاف غالباً ابھی سوچ رہے ہیں کہ اپنا پرانا روایتی طریقہ اپنائے یا نیا سکھایا گیا”اوو۔ اوو“ والا طریقہ آزمائے‘ایسے میں اساتذہ نے حکومت کے ایک نئے پیدا کردہ ایشو یعنی اساتذہ کی تنخواہوں سے انکم ٹیکس کی کٹوتی میں دی گئی25 فیصد رعایت واپس لینے کیخلاف روزہ داری کے باوجود محض سیاہ پٹیاں باندھنے پر اکتفا کرتے ہوئے احتجاج کیا مگر اس بابت بھی کوئی رائے زنی قبل ازوقت ہوگی‘ ویسے معاملہ فہم اور ماضی پر نظر رکھنے والے لوگوں کے نزدیک تو مذکرہ25 فیصد رعایت کی بحالی غالباً اس لئے بھی ممکن نظر نہیں آتی کہ عوام کی خدمت گزاری کیلئے وقف اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں سینکڑوں فیصد کا جو اضافہ کیا گیا ہے اس کیلئے تو پیسوں کا بندوبست کرنے میں اساتذہ سے واپس لی گئی25 فیصد رعایت بھی کام آسکتی ہے۔