گرانٹ کی بیساکھی۔ کب تک؟

 یونیورسٹیوں کو وفاقی گرانٹ مل گئی اور یوں جنوری کی تنخواہ ادا ہوگئی مگر یہ محض ایک مہینے کی بات نہیں بلکہ مستقل مسئلہ ہے کیونکہ سال تو بارہ مہینے کا ہوتاہے مطلب سال2025ء  کے ابھی گیارہ مہینے باقی ہیں لہٰذا اس کا کیا بنے گا؟ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا بہرکیف وقتی طور پر تو گاڑی چل پڑی مگر وہ بھی یونیورسٹیوں نے گرانٹ میں کچھ اپنا حصہ بھی ڈال دیا ہوگا کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کی جامعات میں زیادہ گرانٹ پشاور یونیورسٹی کو ملی مگر تین مہینوں کیلئے‘ اب سوال یہ ہے کہ پشاور یونیورسٹی کا تو ایک مہینے کا خرچہ40کروڑ سے بڑھ گیا ہے تو تین مہینے کی36کروڑ گرانٹ سے جب ایک مہینے کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تو مزید دو مہینوں کا کیا بنے گا؟ کہنے کی بات یہ بھی ہے کہ سو فیصد کی بجائے صرف تیس فیصد گرانٹ اس کے باوجود صوبوں کی یونیورسٹیوں کو دی جارہی ہے کہ وفاقی حکومت نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی وساطت سے گزشتہ سال یکے بعد دیگرے تین مرتبہ تحریری طورپر خیبرپختونخوا کی جامعات کو آگاہ کیا تھا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کو سنبھالنا یعنی یونیورسٹیوں کو چلانا صوبے کی ذمہ داری ہے لہٰذا وفاقی حکومت سے گرانٹ کی مزید توقع مت رکھیں اب یہاں پر سیانے لوگوں کے نزدیک یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ اعلیٰ تعلیم کو آئینی طور پر صوبوں کے حوالے کرنے کے ساتھ اس کا سالانہ بجٹ بھی دیا گیا ہے یا نہیں؟ اگر جواب نفی میں ہو تو پھر اس کا کیا جواز کہ صوبے کی یونیورسٹیاں وفاقی گرانٹ کی طرف مت دیکھیں؟ اگر چہ تعلیم اس وقت روکھی سوکھی پرگزارہ جیسی حالت سے دوچار ہے مگر اندیشہ یہ ہے کہ بالکل قحط سالی جیسا سماں طاری نہ ہو جائے اب ایسے میں احتجاج کا طریقہ آزمانے سے بھی میرے خیال میں کچھ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ یہاں پر احتجاج کا ایک نہیں کئی طریقے آزمائے گئے مگر ہاتھ کچھ نہیں آیا یعنی گلے میں روٹی لٹکا کر منہ میں گھاس لینے والا طریقہ‘ روڈ بندش‘ مظاہرے‘ ریلیاں‘ تالہ بندیاں‘ دھرنے بلکہ توڑپھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ کی نوبت بھی آگئی لیکن معاملہ وہی کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مانند ثابت ہوتا رہا‘ ہاں البتہ ایک نیا غالباً جاپانی طریقہ احتجاج آزمانا ابھی باقی ہے اور وہ ہے”اوو۔اوو“ احتجاج جس
 کے لئے یونیورسٹیوں کو ریاستی طور پر ابھی 9جنوری کو پشاور یونیورسٹی میں اعلانیہ طورپر سمجھایا بھی گیا ہے دیکھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جامعات کو ریاست کی طرف سے بار بار تلقین کی جارہی ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا سامان پیدا کرو‘ یعنی اپنے اخراجات کیلئے اپنے ذرائع آمدن ڈھونڈ لو مگر تاحال اس جانب کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی البتہ یہ ضرور ہوا کہ یونیورسٹیوں کے اخراجات میں ہر سال مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے وجہ یہ ہے کہ اس تلقین میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آرہی ابتری کی اس حالت میں ایک دو حلقے ایسے بھی ہیں جو سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں‘ یعنی پنشنرز اور اخبارات اور فرمز‘ جن کے کروڑوں روپے واجب الادا ہیں مگر جامعات انتظامیہ کو اگر کوئی فکر لاحق ہے تو محض تنخواہوں کی ادائیگی اور اپنے اخراجات چلانے تک محدود ہے‘اب سوال یہ ہے کہ حالیہ گرانٹ میں سب سے بڑی یونیورسٹی کے سب سے زیادہ پنشنرز کے حصے میں کچھ آیا؟  یا بدستور محروم رہے؟ ان کے گزشتہ سال سے واجب الادا بقایا جات کا کیا بنے گا؟ جبکہ اخبارات اور فرمز کی ادائیگی کے بارے میں یونیورسٹیاں کیا سوچ رہی ہیں؟ ایسے میں کفایت شعاری کا کوئی طریقہ؟ کوئی لائحہ عمل؟ کیونکہ گرانٹ کی بیساکھی کب تک قائم اور برقرار ہے گی؟