مالیاتی سختی: شرح سود

‏نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے مبینہ طور پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو یقین دلایا ہے کہ وہ اسٹینڈ بائی انتظامات پر قائم رہیں گے اور دنیا کے سب سے بڑے قرض دہندہ کے ساتھ طے شدہ پالیسی اقدامات پر عمل درآمد کریں گے۔‏

‏جہاں تک عوام کا تعلق ہے، اس کا مطلب مزید مہنگائی ہے کیونکہ پاکستان توانائی کے شعبے میں "اصلاحات" جاری رکھے گا - بجلی اور گیس کے نرخوں کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔‏

‏اس کے علاوہ، مالیاتی امور سختی زیادہ ہوگی یا تو شرح سود میں اضافہ یا موجودہ سطح کو برقرار رکھنے کے سوا پاکستان کے پاس چارہ نہیں رہا۔‏

‏‏یہ وعدہ اس وقت سامنے آیا جب امریکی فیڈرل بینک کے چیئرمین جیروم پاول اور یورپی سینٹرل بینک کی صدر کرسٹین لیگارڈ نے واضح کیا کہ افراط زر کو 2 فیصد تک واپس لانے کے مرکزی بینکروں کے مشترکہ مقصد میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور موجودہ مانیٹری پالیسی کو برقرار رکھا جائے گا۔‏

‏سادہ الفاظ میں، پاکستان کے عوام مستقبل قریب میں شرح سود میں کٹوتی کی اُمید نہ رکھیں بلکہ اس میں مزید اضافے کا امکان بھی ہے۔

شرح سود میں کمی پاکستان جیسے ممالک کے لئے واحد حل ہے؟ 

ریکارڈ افراط زر اور شرح سود کے ساتھ ساتھ توانائی کی قیمتیں بھی بجلی کی کم طلب (پیٹرول اور ڈیزل کی طرح) کی صورت میں قومی معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہیں کیونکہ پاور ڈویژن نے رواں ہفتے کے اوائل میں بجلی کے نرخوں میں 5.40 روپے فی یونٹ اضافے کی ابتدائی درخواست سے پیچھے ہٹ تے ہوئے سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ (کیو ٹی اے) کی مد میں 3.55 روپے کے چھوٹے اضافے کی تجویز دی تھی۔‏

‏یہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل کرنے کی وکالت کرنے والوں کے لئے ایک ویک اپ کال ہے کیونکہ معیشت پر پہلے ہی تباہ کن اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔‏