بجلی کے زیادہ بل: وجہ کیا ہے؟

شبیرحسین امام

سب سے زیادہ بجلی کس شہر میں چوری ہوتی ہے؟

پاکستان میں بجلی کے ترسیلی نظام سے جڑی خرابیاں اپنی جگہ لیکن بجلی کی چوری بھی ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے جو ہر سال 520 ارب روپے کی بجلی چوری کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

بجلی کی قیمت کیوں زیادہ ہے؟ اس حوالے سے جب سوال پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے ایک انتظامی عہدیدار سے کیا گیا تو اُنہیں نے مالی سال دوہزاراکیس بائیس کے دوران بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سالانہ نقصانات کے حوالے سے اعدادوشمار پیش کئے اُور کہا کہ جب بجلی چوری ہوتی تو چوری شدہ بجلی کی قیمت جملہ صارفین پر تقسیم کر دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں چند دلچسپ حقائق بھی بتائے گئے جیسا کہ پاکستان میں سب زیادہ بجلی چوری پشاور میں ہوتی ہے جو 37فیصد ہے۔ پشاور کے بعد بجلی چوری کرنے والا دوسرا شہر سکھر ہے جہاں 35 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ تیسرے نمبر پر حیدر آباد میں 32فیصد بجلی چوری ہوتی ہے اُور چوتھے نمبر پر کوئٹہ ہے جہاں 28فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ اِسی طرح لاہور میں گیارہ فیصدٗ گوجرانوالہ نو فیصد اُور فیصل آباد میں بھی نو فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔

ٹیک اینڈ پے کی شرط کیوں لگائی گئی، ڈالروں میں بجلی کیوں خریدی گئی، بجلی چوری روکنے کے لئے ریاست کو بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ تیس فیصد بجلی کی ریکوری نہیں ہو رہی، افسرشاہی کے گھروں اُور دفاتر کے بل ادا نہیں ہو رہے۔ کیپسٹی پیمنٹ پر بجلی گھروں سے معاہدوں پر نظرثانی کیوں نہیں کی جاتی۔ اگلے سال دو ہزار ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کرنا ہوں گے۔ عوام کو تیس سے چالیس فیصد ریلیف دیا جا سکتا ہے۔

بنیادی ٹیکسوں میں ریلیف نہیں دیا جا رہا باقی دیگر اقدامات بے معنی ہوں گے۔

اگلے اڑتالیس گھنٹے میں رپورٹ پیش کی جائے گی جس میں وسط مدتی اُور طویل مدتی لائحہ عمل بنایا جائے گا۔ اگر رپورٹ ہی طلب کرنا تھی تو آج کابینہ اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں۔ نگران وزیراعظم اُور کابینہ کے اجلاس میں کیا ہوا۔ نہ عیاشی ختم ہوتی ہے اُور نہ ہی عوام کے درد کو سمجھا جاتا ہے۔

افسرشاہی کو درست کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟

یہ بات کرنا اب کافی نہیں کہ جو ہو چکا سو ہو چکا، جلد بازی نہیں کرنی چاہیئے۔ روز لوگ مر رہے ہیں۔ روز خودکشیاں ہو رہی ہیں۔ اس میں کتنا وقت مزید لگے گا؟

عوام مطالبہ کر رہی ہے کہ بنیادی ٹیکسوں میں کمی کی جائے۔ ریاست کی کچھ مجبوریاں ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدے میں شرائط پر اتفاق کیا گیا ہے وہ حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں۔

اگر آئی ایم ایف کو دینے والے سارے پیسے عوام سے نکالنے کی بجائے اُن سے کیوں وصول نہٰیں کئے جاتے جنہوں نے ملکی وسائل کو لوٹے ہیں۔ نجی بجلی گھروں کو دیئے گئے اربوں روپوں کا حساب ہونا چاہیئے۔

کیپسٹی پیمنٹ پر دستخط کرنے والوں کے اثاثوں کی چھان بین ہونی چاہیئے۔

اگست 2013ء میں ایک سیل بنایا گیا جس نے بجلی کی چوری سے متعلق رپورٹ بنائی تو سامنے آیا کہ افسرشاہی اُور سرمایہ دار بجلی چور ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد وہ خصوصی سیل ختم کردیا گیا۔

وفاقی وزیر عمرایوب نے کہا تھا کہ 300 ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے۔ 2022ء میں پھر کوشش کی گئی رپورٹ بنائی گئی لیکن حقائق تبدیل نہیں ہوئے۔ بجلی کی چوری، بجلی بلوں کی عدم ادائیگی اُور بجلی کی کیپسٹی پیمنٹ کے مسئلے حل نہیں ہوئے۔

بجلی کے زیادہ بل صرف بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اس میں شامل زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے بھی ہیں جو ہر بل کا 40 سے 50 فیصد ہوتے ہیں۔

حکومتی چارجز میں بجلی ڈیوٹی، ٹی وی فیس 35 روپے، جی ایس ٹی، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور ایکسائز ڈیوٹی شامل ہے۔

وفاقی حکومت صوبوں سے 0.5 فیصد بجلی ڈیوٹی وصول کرتی ہے، ملک بھر میں ٹیرف کو یکساں رکھنے کیلئے 5 سے 7 روپے فی یونٹ سرچارج رکھا گیا ہے، حکومت بجلی کے بلوں میں صارفین سے 0.43 روپے فی یونٹ مالیاتی سرچارج بھی وصول کرتی ہے۔

کمرشل اور صنعتی صارفین سے انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، صارفین پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس بھی لاگو ہے، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر مزید جی ایس ٹی وصول کیا جاتا ہے، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بھی شامل ہے۔

بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے موجودہ بلوں میں صارفین سے بجلی کے بڑھے ہوئے نرخوں کی وصولی کیلئے بل ایڈجسٹمنٹ بھی وصول کی، بجلی کے نرخ 42 روپے فی یونٹ ہونے پر صارفین نے بھی شور مچایا تھا، ماہانہ 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو سبسڈی دی جاتی تھی اور ان کیلئے نرخ 10 روپے فی یونٹ تھا۔

تاہم آئیسکو نے 200 فی یونٹ استعمال کرنیوالے صارفین سے 22.9 روپے فی یونٹ وصول کیا، آئیسکو حکام کا کہنا ہے کہ 200 یونٹ پر سبسڈی کی سہولت ان صارفین کیلئے ہے جو متواتر 6 ماہ 200 یونٹ استعمال کریں، بجلی صارفین کے ریلیف کیلئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات کی تجویز کردہ 25 روپے ریڈیو فیس لاگو نہیں کی گئی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بجلی کے بلوں میں ٹیکس اور لیویز کو مختصر مدت میں کم نہیں کیا جا سکتا۔

ماہرین کے مطابق مالیاتی توازن برقرار رکھنے اور آئی ایم ایف کے دباؤ کے پیش نظر موجودہ نگران حکومت کیلئے کسی بھی ٹیکس کی وصولی میں کمی یا تاخیر ممکن نہیں، طویل مدتی حل صرف یہ ہے کہ بجلی اور گیس یوٹیلیٹی کمپنیوں کو بند کر دیا جائے اور بغیر کسی سیاسی یا دیگر مداخلت کے ان کی نجکاری کی جائے۔