شبیر حسین اِمام (آل یاسین)
جماعت ِاسلامی: اُمید کی کرن
خیبرپختونخوا کا ضلع ’لوئر دیر‘ جنت نظیر سرسبز و شاداب وادیوں کا مجموعہ ہے جس کا ’ثمر باغ‘ علاقہ کسی شہر کا منظر پیش کرتا ہے جہاں اب خوشحالی کے ڈیرے ہیں اُور ایک وقت تھا جب ثمرباغ میں بیشتر مکانات کچے (مٹی کے بنے ہوئے) ہوتے تھے لیکن آج ثمرباغ کو کسی بلند مقام سے دیکھنے پر لاتعداد چھوٹے بڑے پکے مکانات کی اونچی نیچی قطاروں نے پہاڑی چوٹیوں کو ڈھانپ لیا ہے عموماً اِس طرح کی آباد کاری سے درختوں کا بڑے پیمانے پر ’قتل عام‘ ہوتا ہے لیکن ثمر باغ میں یہ قتل عام زیادہ نہیں ہوا اُور گھروں کے آنگن اُور گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے کہیں کہیں درختوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے جو اگرچہ خود کو اجنبی سمجھ رہے اُور شاید چند برس کا مہمان بھی کیونکہ اُن کے آس پاس (گردوپیش) میں تعمیراتی ترقی سماجی ترجیحات میں تبدیلی کی عکاس ہے۔ کاش ہم قدرت کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھ لیں تو اِس قسم کی ماحول دوستی کے فائدے ہی فائدے ہیں اُور نقصان کوئی نہیں ہے۔ ثمرباغ کی وادی میں چناڑ جسے Chinese Banyan بھی کہا جاتا ہے کے درخت کثرت سے دیکھنے کو ملتے تھے اُور اگرچہ اِن کی اب بھی تعداد دیگر درختوں کے مقابلے زیادہ ہے لیکن اِن کے جھنڈ یہ ماضی کی طرح گنجان نہیں رہے۔ یہ کنیڈین میپل اُور کشمیری چناڑ نامی درختوں سے مختلف قسم کا ہے لیکن شاید اِن کی نسل (خاندان) ایک ہی ہے اُور اِسی وجہ سے اِن میں بڑی مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ ثمر باغ میں استقبال کرنے والا دوسرا نمایاں درخت ’چیڑ (پائن)‘ کا ہے جسے Pinus Roxburghii کہا جاتا ہے اُور پائن نسل کے درختوں کی قسم ہے۔ اِس درخت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے آپ خود کو قائم رکھ سکتا ہے اُور موسمیاتی اثرات کا مقابلہ بھی دیگر درختوں کے مقابلے زیادہ بہتری سے کرتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ اِس سے حاصل ہونے والے گودے سے چہرے پر لگائی جانے والی کریم بنائی جاتی ہے جس میں سنگاپور کی کمپنی ’ٹری ہٹ (Tree Hut)‘ کی مصنوعات دنیا بھر میں بہت مقبول ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ سنگاپور جس کا کل رقبہ 719 مربع کلومیٹر ہے اُور پاکستان جس کا کل رقبہ 7 لاکھ 96 ہزار 95 مربع کلومیٹر ہے اُور پاکستان میں چیئر کے درخت بھی سنگا پور سے زیادہ ہیں لیکن یہاں درختوں اُور دیگر جڑی بوٹیوں سے اُس طرح کا فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا جس قدر ترقی یافتہ ممالک اُٹھا رہے ہیں اُور شاید یہی اُن کی ترقی کی بنیادی وجہ ہے کہ وہاں قدرت اُور قدرت کے وسائل پر غور ہوتا ہے اُور اِس سے انسانی زندگی کے لئے فوائد کشید کئے جاتے ہیں۔
’ثمر باغ‘ کا ممتاز و توانا تعارف جماعت اسلامی پاکستان کے پانچویں امیر (سربراہ) ’سراج الحق‘ بھی ہیں جو 30 مارچ 2014ء سے ’جماعت اسلامی‘ کی قیادت کر رہے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات علم ہوگی کہ جماعت اسلامی میں مشاورت کا نظام انتہائی مضبوط ہے اُور اعلیٰ سے ادنیٰ درجے تک جماعت کا ہر رکن انتہائی فعال تنظیمی ڈھانچے کا حصہ ہوتا ہے جس میں ہر شخص کی انفرادی رائے تو ہوتی ہے لیکن یہ انفرادی رائے جماعت کے اجتماعی مفاد (فیصلوں) پر اثرانداز نہیں ہوتی اُور شاید ہی تنظیم اُور نظم و ضبط کے لحاظ سے پاکستان کی کوئی بھی دوسری سیاسی دھڑا ’جماعت اسلامی‘ کا مقابلہ کر سکے جس کا آغاز 26 اگست 1941ء کے روز (آج سے 82 سال) قبل ہوا اُور قیام پاکستان کے ساتھ ہی ’جماعت‘ کا سفر بھی شروع ہوا جس کے 76سال مکمل ہو چکے ہیں۔
جماعت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ شروع دن سے آج تک قائم ہے اُور اِسے توڑنے (دھڑے بندی) کی کئی کوششیں صرف اِسی وجہ سے ناکام ہوئیں کہ جماعت میں اجتماعی فیصلوں کی قدر اُور اُن پر عمل کیا جاتا ہے۔ اِسی طرح کا نظام ’ولایت فقیہہ‘ جمہوری اسلامی ایران میں انقلاب کے بعد قائم ہوا جس کا مطالعہ نوجوان نسل کو کرنا چاہئے کہ کس طرح Guardianship of the Islamic Jurist کے تحت کسی بھی سیاسی و سماجی اُور مذہبی تحریک کے مقاصد اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان ہو سکتے ہیں اُور کس طرح ہر کلمہ گو (مسلمان) پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ماننے کے ساتھ اُس کے احکامات کو بھی مانتے ہوئے ’اَمیر‘ کی اطاعت کرے۔ مولانا ابوالاعلی مودودی جنہیں جماعت کا امام بھی کہا جاتا ہے (وفات 1972ء) کے بعد دوسرے امیر میاں طفیل (وفات 2009ء)‘ تیسرے امیر قاضی حسین احمد (وفات 2013ء) اُور چوتھے امیر سیّد منور حسن (وفات 2020ء) رہے اُور سیّد منور حسن کی حیات ہی میں سراج الحق نے بطور پانچویں ’امیر ِجماعت‘ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔
سراج الحق سینیٹر‘ خیبرپختونخوا کے سینئیر وزیر اُور رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ سراج الحق کی خصوصیت یہ ہے کہ وقت اُور حالات کے مطابق ’حکمت ِعملی‘ تبدیل کرتے رہتے ہیں لیکن اُن کی جدوجہد کا مرکزی نکتہ (لائحہ عمل) دستور بدستور یہی ہے کہ ”ادخلو فی السلم کافہ (ترجمہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ)“ اُور یہ دو ضمنی مقاصد میں تقسیم ہے ایک اقامت دین کی جدوجہد ہے جو علامہ اقبالؒ کے شعر سے ماخوذ کی گئی ہے کہ ”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے“ اُور جدوجہد کا دوسرا لائحہ عمل ”ظلم کے نظام کے خلاف عوامی بیداری کی جدوجہد“ ہے اُور اِس تصور کو سراج الحق نے نہ صرف معنویت دی ہے بلکہ شبانہ روز کوششوں سے جماعت اسلامی کو اُس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ جہاں آج (اگست دوہزار تیئس) میں پاکستان کی کوئی ایک بھی سیاسی دھڑا ایسا نہیں جس کی قیادت کو ’جماعت اسلامی‘ کی طرح عوامی حلقے توجہ سے سنتے ہوں اُور یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی مہنگائی‘ سماجی و معاشی مسائل اُور بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اُمید کی کرن بن کر اُبھری ہے اُور امیر جماعت کی جانب سے ’2 ستمبر 2023ء‘ کے ملک گیر احتجاج کے اعلان اُور یقینی کامیابی نے پورے ملک میں ایک طرح کا ارتعاش پیدا کیا ہے‘ جس میں سیاسی و غیرسیاسی اُور ہر مکتبہئ فکر کی نظریں جماعت پر ٹکی ہوئی ہیں۔
عوام کی قوت برداشت جواب دے گئی ہے اُور جماعت اسلامی نبض آشنا ثابت ہوئی ہے جس نے بروقت بجلی کی قیمت میں اضافے‘ بجلی بلوں میں انواع و اقسام کے ٹیکسوں پر فریاد کرنے والوں کی قیادت کا فیصلہ کیا ہے جو یقینا سبھی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا پہلا نکتہ ہوگا لیکن ماضی کی حکمران رہی سیاسی جماعتیں کس منہ سے عوام کے پاس جائیں گی جبکہ بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاجی تحریک ’سول نافرمانی‘ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے بارے میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے خبردار بھی کیا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی جس نے عام انتخابات میں تاخیر کے لئے مردم شماری نتائج پر اعتراضات و تحفظات کے باوجود اِس کی منظوری دی اب مطالبہ کر رہی ہے کہ پرانی مردم شماری کے مطابق ہی نئے انتخابات جلد از جلد کروائے جائیں کیونکہ پیپلزپارٹی اُور اِس کی اتحادی دیگر جماعتیں دیکھ رہی ہیں کہ کس طرح عوام اُن کے ہاتھوں سے پھسل کر جماعت اسلامی کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اُور اگر اِس صورتحال میں انتخابات کرانے میں تاخیر کی گئی تو ماسوائے جماعت اسلامی کوئی ایک بھی جماعت اِس پوزیشن میں نہیں کہ عوام کے سامنے جا سکے اُور اُس کے نامزد اُمیدوار اپنی اپنی انتخابی مہمات بنا عوام کے غیض و غضب کا شکار ہوئے مکمل کر سکیں۔
جماعت اسلامی کی شاخیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن اِس کی جڑیں خیبرپختونخوا میں ہیں اُور ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا میں ’تبدیلی کی ہوا‘ چلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے جبکہ یہ وقت اُور حالات کا پلڑہ‘ صرف اُور صرف جماعت ِاسلامی کے حق میں ہے۔
……