اندیش ہائے روز و شب: سنگین غلطیاں 

شبیرحسین اِمام


اندیش ہائے روز و شب: سنگین غلطیاں 


زمانے کو بالعموم تین اَدوار (ماضی حال اُور مستقبل) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ عمومی تصور یا نصابی تشریح اپنی جگہ درست لیکن کسی انسان کے لئے زمانے کی تعریف اُس کی عملی زندگی سے متعلق ہوتی ہے اُور اِس سلسلے میں زیادہ جامع تشریح انگریزی زبان کے معروف رومانی شاعر ولیم ورڈز ورتھ (وفات 23 اپریل 1850ء)  نے کی تھی جنہوں نے زندگی کو تین ادوار ”سوچ‘ جدوجہد اُور جستجو“ سے ماخوذ کرتے ہوئے کہا کہ ”انسان کا واسطہ ہمیشہ دوسروں سے زیادہ اپنے آپ سے رہتا ہے اُور شعور رکھنے والوں کی دنیا اُور ہوتی ہے جو بالعموم اِن سوالات (اندیش ہائے روز و شب) پر غور کرتے ہیں کہ وہ کیا تھا‘ وہ کیا ہے اُور کیا ہو گا۔“ اُنہوں نے یہ بھی لکھا کہ ”ہمیں ماضی میں صرف اپنی ہی نہیں بلکہ گردوپیش میں رہنے والوں کی غلطیوں سے حاصل نتائج سے بھی سیکھنا چاہئے یعنی اُن واقعات کی معلوم تفصیلات اُور نتائج پیش نظر رکھنے چاہیئں۔ ہمیں چاہئے کہ حال میں موجود مواقعوں سے فائدہ اُٹھائیں اور تیسرا یہ کہ مستقبل میں زیادہ بہتر زندگی کی جستجو (لگن) رہنی چاہئے۔“ زندگی اُور شعوری زندگی کے درمیان فرق یہی ہے کہ کسی بھی صورت حالات کی وجہ سے افراتفری (جلدبازی) اُور بوکھلاہٹ (بے صبری) کا شکار نہ ہوا جائے کیونکہ اِنہی دو حالتوں (جلد بازی اُور بے صبری) کی وجہ سے اکثر و بیشتر نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ آسٹریا میں مقیم معروف شاعر آفتاب حسین (پیدائش 1962ء) نے کہا تھا کہ ”اِسی طرح کے شب و روز ہیں وہی دنیا: پرانی خاک پہ تعمیر ہے نئی دنیا …… میں اپنے آپ میں گم تھا مجھے خبر نہ ہوئی: گزر رہی تھی مجھے روندتی ہوئی دنیا …… ہر آدمی کو یہ دنیا بدل کے رکھ دے گی: بدل سکا نہ اگر اب بھی آدمی دنیا  …… نئی ہوا کو مدد کے لئے پکارتی ہے: خود اپنی آگ میں جلتی ہوئی نئی دنیا …… میں جس حوالے سے دنیا پہ غور کرتا ہوں: اُسی طرح سے کبھی کاش‘ سوچتی دنیا …… میں اپنے اصل کی جانب رواں دواں ہوں اُور: بلا رہی ہے مسلسل مجھے مری دنیا۔“

تعجب خیز نہیں کہ ملک کے خراب معاشی حالات کی وجہ سے بیرون ملک جانے والے خواہشمندوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے تاہم تعجب خیز یہ ہے کہ افراتفری کے ماحول میں بالخصوص نوجوان طبقے سے سنگین غلطیاں سرزد ہورہی ہیں اُور اپنے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے والے جمع پونجی سے بھی محروم ہو رہے ہیں جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ ’خود برسرروزگار‘ ہو سکتے ہیں لیکن معاشی غیریقینی کا جلد خاتمہ ہو گا اُور کاروبار پھلے پھولیں گے یہ بات بھی یقینی نہیں ہے۔ اِس صورتحال کا ’ناجائز فائدہ‘ اُٹھانے والوں نے اندھیرنگری مچا رکھی ہے اُور کھلے عام ہونے سادہ لوح افراد کو لوٹا جا رہا جبکہ متعلقہ حکومتی اداروں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ پشاور کے مختلف حصوں (بالخصوص رنگ روڈ‘ یونیورسٹی ٹاؤن‘ خیبربازار اُور جی ٹی روڈ) میں ’ویزا اینڈ ایمیگریشن ایڈوازری‘ کے نام سے دفاتر قائم ہیں جہاں ایک ویزے کی درخواست جمع کروانے کی فیس دو سے ڈھائی لاکھ روپے‘وصول کی جا رہی ہے حالانکہ یہ کام تھوڑا سا پڑھا لکھا شخص انٹرنیٹ کی مدد سے باآسانی خود بھی کر سکتا ہے کیونکہ تمام تر معلومات ’آن لائن‘ مفت دستیاب ہیں۔

سوشل میڈیا افواہیں پھیلانے اُور سادہ لوح افراد کو شکار کرنے کا سب سے آسان ذریعہ ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ’کینیڈا‘ کی ایمیگریشن اُور ویزے کے حصول سے متعلق پوسٹ شیئر (وائرل) ہوئیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ ”یکم ستمبر“ سے کینیڈا نے اپنی ویزا پالیسی پر نظرثانی کر دی ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کینیڈا کی شہریت یا کینیڈا کا ویزا حاصل کرنے کے لئے ڈھائی سو سے زیادہ مختلف سہولیات کا پہلے ہی اعلان ہو چکا ہے اُور اِن میں کینیڈا کی صوبائی اُور وفاقی حکومتوں کی جانب سے ویزے جاری کرنے کے لئے الگ الگ معیارات مقرر ہیں۔ کینیڈا جانے والے خواہشمند افراد کے لئے ”پہلا مشورہ“ یہ ہے کہ کینیڈین حکومت کی جانب سے یہ بات لازم نہیں کہ کسی بھی قسم کے ویزے یا کاروبار یا شہریت حاصل کرنے والوں کو لازماً کسی نہ کسی مشیر‘ وکیل‘ ترجمان یا سہولت کار کی خدمات حاصل کرنا پڑیں لیکن چونکہ یہ کام درجنوں دستاویزات میں دیئے گئے سوالات کے جوابات دینے سے کئے جا سکتے ہیں اُور وقتاً فوقتاً مختلف کوائف کو ثابت کرنے کے لئے دستاویزی ثبوت بھی پیش کرنا ہوتے ہیں اِس لئے بہتر سمجھا جاتا ہے کہ کسی نہ کسی شخص یا مستند ادارے کی خدمات حاصل کی جائیں اُور اِس کام کے لئے کینیڈین حکومت نے وکالت یا مشاورت یا ترجمانی کرنے والے اداروں کو کام کاج کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جن کی کینیڈین حکومت سے مقرر کردہ فیس آٹھ سے دس ہزار ڈالر ہے اُور اِس قسم کی خدمات (ایڈوائزری سروسیز) فراہم کرنے والوں کو اِس بات سے منع کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت آٹھ دس ہزار کینیڈین ڈالر سے کم فیس وصول نہ کریں۔ ذہن نشین رہے کہ ’2 ستمبر‘ کے روز ایک کینیڈین ڈالر 227 روپے کا ہے اُور اگر کینیڈا میں کسی ویزا مشیر کی خدمات حاصل کی جائیں تو اِس پر اٹھارہ سے بیس لاکھ روپے خرچ آئے گا جبکہ یہی کام پاکستان سے کرنے پر دو سے تین لاکھ روپے خرچ آتا ہے لیکن ہر ادارہ یا شخص مجاز اُور تجربہ کار ’مشیر‘ نہیں ہو سکتا۔ ”دوسرا مشورہ“ یہ ہے کہ ویزا یا ایمیگریشن حاصل کرنے کے لئے انتہائی حساس معلومات فراہم کرنے میں احتیاط کرنی چاہئے۔ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) کے دور میں کسی بھی شخص یا خاندان کے بارے میں تفصیلی معلومات رکھنے والے کئی قسم کے ’فراڈ‘ کر سکتے ہیں اُور ایسے فراڈ معمول بنتے جا رہے ہیں لہٰذا احتیاط کرنی چاہئے۔

ویزے کے نام پر اندرون و بیرون ملک کس قسم کے فراڈ ہو رہے ہیں۔ اِس کی جھلک مردان کے ایک رہائشی سے پیش آنے والے افسوسناک واقعات ہیں۔ چھ سات ماہ مذکورہ شخص کا سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ ’اُزبکستان‘ میں قائم ایک ویزا مشاورتی ایجنسی سے ہوا۔ اُس ایجنسی نے دعویٰ کیا کہ اُن کے پاس کینیڈا کے چند ویزے موجود ہیں جو ماسکو میں موجود کینیڈین سفارتخانے سے لگوائے جاتے ہیں۔ شکار کا تجسس بڑھانے کے لئے آن لائن (Zoom) میٹنگ کروائی گئی اُور طے پایا کہ پندرہ ہزار امریکی ڈالرز (کم و بیش پچاس لاکھ پاکستانی روپے) میں اُس شخص کو کینیڈا کا ویزا جاری کروایا جائے گا۔ یہ شخص ازبکستان گیا جہاں اِس نے مذکورہ خطیر رقم ایک ’تھرڈ پارٹی‘ کے پاس بطور ضمانت (امانت) جمع کروائی تاکہ جب ویزا مل جائے تو وہ یہ رقم ویزا فراہم کرنے والی کمپنی کو ادا (ریلیز) کر دے۔ چند روز بعد اُسے پاسپورٹ واپس دیا گیا جس پر کینیڈا کا ویزا لگا ہوا تھا اُور اُس نے حسب ِوعدہ خوشی خوشی پندرہ ہزار امریکی ڈالر ریلیز کروا دیئے۔ اِس کے بعد اُس نے ٹکٹ خریدا لیکن جہاز پر سوار ہونے سے پہلے جعلی ویزا رکھنے کی وجہ سے اُسے گرفتار کر لیا گیا اُور تین دن حراست میں رکھنے کے بعد پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔ اِس طرح کی دھوکہ دہی کے سبق آموز درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں‘ جنہیں خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ 


صوبائی دارالحکومت پشاور میں تمام تر قانون نافذ کرنے والے اداروں اُور صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے جاری ’فراڈ‘ کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ویزے کے خواہشمند افراد سے ’ڈھائی لاکھ روپے (نقد)‘ وصول کر لئے جاتے ہیں اُور کہا جاتا ہے کہ جب ویزے کا دعوت نامہ (انویٹیشن لیٹر) آئے گا تب اُسے تیس سے پچاس لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے۔ ویزہ مشاورتی ادارے گاہگ کی بے صبری اُور مالی حیثیت کو دیکھ کر اُس سے رقم کا تقاضا کرتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ انویٹیشن لیٹرز (دعوت نامے) جعلی ہوں یا اصلی‘ دونوں صورتوں میں اِس بات کی ضمانت نہیں ہوتے کہ اُن پر لازماً ویزے ملیں گے لیکن اُن کے عوض سادہ لوح افراد لٹ رہے ہیں اُور اِن لٹنے والوں میں پاکستانیوں کے مقابلے بڑی تعداد افغان مہاجرین کی ہے‘ جنہیں قانون کا تحفظ بھی حاصل نہیں اُور وہ اپنے ساتھ ہوئی دھوکہ دہی کی رپورٹ بھی درج نہیں کروا سکتے! حیرت انگیز طور پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اُور بالخصوص وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے اہلکار پشاور اُور خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں جاری اِس دن دیہاڑے جاری دھندے کو نہیں دیکھ رہے اُور تجاہل عارفانہ اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ ضرورت اِس طرزعمل میں تبدیلی کی ہے کیونکہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک کے معاشی حالات درست نہیں کر سکتے تو وہ کم سے کم عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ تو کر سکتے ہیں اُور اِنہیں ایسا ضرور کرنا چاہئے کیونکہ یہ اِن کی بنیادی ملازمتی ذمہ داری (فرائض منصبی میں شامل) ہے۔

ویزا مشاورتی خدمات فراہم کرنے والے مختلف افراد سے بات چیت کے بعد ’پہلی تجویز‘ یہ ہے کہ جعلی دستاویزات اُور غلط بیانی کی بنیاد پر کسی بھی ملک کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ قانونی راستے موجود ہیں۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ بیرون ملک سرمایہ کاری اُور کاروبار کے لامحدود امکانات ہیں جس کے لئے کم سے کم دو لاکھ امریکی ڈالر (چھ کروڑ پاکستان روپے) سے سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے اُور یہ سرمایہ کاری کہاں کرنی ہے اُور کیسے کرنی ہے اِس کے لئے اندرون و بیرون ملک ’درست مشاورت (ایڈوئزری)‘ کو دے سکتا ہے اُور اُس مشاورت کا معیار و خصوصیات میں کیا کچھ شامل ہوگا اِس حوالے سے تفصیلات کا احاطہ آئندہ کسی تحریر میں کیا جا سکتا ہے۔ تیسری تجویز یہ ہے کہ بیرون ملک کاروبار کے موجود مواقعوں سے استفادہ کرنے کے لئے ’ویزا ایڈوائزر‘ کی نہیں بلکہ ’بزنس ایڈوئزر‘ کی ضرورت ہوتی ہے اُور یہ کام بالکل ہی مختلف نوعیت کا یا زیادہ پیچیدہ و تکنیکی لحاظ سے مختلف ہے لہٰذا درست مشاورت کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ چوتھی تجویز یہ ہے کہ ویزا درخواست کے لئے مشاورتی خدمات لینے سے پہلے سمجھ لیں کہ کسی شخص یا ادارے کو کون کون سی معلومات دینی ہے اُور کونسی ذاتی معلومات پہلے مرحلے پر دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ غیرمتعلقہ اُور غیرضروری معلومات دینے سے اِس بات کا امکان زیادہ رہتا ہے کہ یہ معلومات چوری ہو جائیں۔

گردوپیش میں دیکھیں کہ کس طرح جعل سازی کی شکایات سننے میں آ رہی ہیں‘ جن میں ذاتی کوائف (حساس معلومات) کا غلط استعمال ہو رہا ہے اُور اِس عمل کو ’identity theft‘ کہا جاتا ہے۔ پانچویں تجویز یہ ہے کہ سیاحتی ویزا (کسی ملک میں مختصر دورانئے کے قیام کا اجازت نامہ) اُور سرمایہ کاری (کسی ملک میں کاروباری سرگرمی کرنے کی اجازت) کے بارے میں جاننے کے لئے تعلیم یافتہ صارفین کو ’آن لائن‘ تحقیق لازما کرنی چاہئے اُور مختلف ممالک کی ویزا پالیسیوں سے متعلق اُن کی ویب سائٹس پر موجود معلومات کو پڑھنے اُور سمجھنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے البتہ خوداعتمادی اُور صبر و تحمل سے کام کیا جائے تو ویزا درخواست دینے کے لئے کسی شخص کو ابتدا میں ڈھائی لاکھ اُور بعدازاں پچاس لاکھ روپے دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ زیادہ بہتر و مناسب اُور محفوظ ہوگا کہ یہی کام خود کرنے کی کوشش کی جائے۔ ذہن نشین رہے کہ بیرون ملک کا سیاحتی اجازت نامہ (وزٹ ویزا) یا وہاں سرمایہ کاری کا فیصلہ صرف مالیاتی امور (پیسے) ہی سے متعلق نہیں بلکہ اِس کا تعلق درخواست گزرا کے حال اُور اُس کے مستقبل سے بھی ہے لہٰذا اندیش ہائے روزگار میں دانستہ ’سنگین غلطیوں‘ سے اجتناب کریں کہ اِس معاشی مسائل کی شدت کم نہیں بلکہ معاشی غیریقینی میں اضافہ ہوگا۔
……