شبیرحسین اِمام
اندیش ہائے روزگار : اہم نکات
پہلا نکتہ: پاکستان کے عام آدمی کو دیئے گئے سبز رنگ کے پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں بہتری کی بجائے سال بہ سال تنزلی (بے توقیری) دیکھی جا رہی ہے‘ جو قومی معاشی‘ اقتصادی اور سماجی ترقی کے دعوؤں کی کھلم کھلا تردید ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان بدعنوانی (کرپشن) کی درجہ بندی (رینکنگ) میں سولہویں درجے پر ہے اُور کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان دنیا میں 140ویں نمبر پر ہے جبکہ پاسپورٹ رینکنگ کے عالمی ادارے ہینڈلے نے سال دوہزاربائیس میں جو ’انٹرنیشنل پاسپورٹ انڈیکس‘ جاری کی تھی اُس فہرست کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ دنیا کا ’چوتھا کمزور ترین پاسپورٹ‘ قرار دیا گیا جبکہ سال دوہزاراکیس میں پاکستانی روپے کی عالمی درجہ بندی میں یہ پاسپورٹ پانچویں نمبر پر تھا اُور یہ مزید ایک درجہ کم ہوکر چوتھے نمبر پرآگیا ہے۔ فی الوقت پاکستان سے زیادہ کم درجے کے پاسپورٹ شام‘ عراق اُور افغانستان کے ہیں جو طویل عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ممالک ہیں۔ اِسی طرح ’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان‘ کی سالانہ جائزے رپورٹ (برائے سال دوہزاراکیس) میں پاکستان کے بدعنوان اداروں کی فہرست جاری کی گئی جس میں پولیس سرفہرست‘ عدلیہ دوسرے‘ ٹینڈر اور کنٹریکٹنگ سیکٹر تیسرے نمبر پر‘ صحت چوتھے‘ لینڈ ایڈمنسٹریشن پانچویں‘ لوکل گورنمنٹ کرپشن میں چھٹے نمبر‘ تعلیم ساتویں‘ ٹیکسیشن آٹھویں اور این جی اوز بدعنوانی میں نویں نمبر پر ہیں۔ جب زمینی حقائق یہ ہوں تو پاکستانی پاسپورٹ کی قدر میں بہتری کس طرح آ سکتی ہے اُور جب عالمی سطح پر ملک کی ساکھ بہتر نہیں ہوگی تو اُس وقت تک پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ویزے کا حصول بھی مشکل رہے گا۔
دوسرا نکتہ: ریاست کا بنیادی ڈھانچہ حکومت‘ مقننہ‘ عدلیہ اورمیڈیا کہلاتا ہے اُور اِنہیں کسی بھی جمہوری ریاست کے چار ستون بھی قرار دیا جاتا ہے اُور اگر اِن چار میں سے ایک بھی ستون خستہ و شکستہ ہو تو ریاست کا نظم ونسق چلایا نہیں جا سکتا۔ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ چاروں ستون انتہائی شکستہ ہیں۔ حکومتی رٹ قائم کرنے کے حوالے سے پاکستان 180 ممالک میں سے 146ویں نمبر پر ہے۔ مقننہ کے حوالے سے 141ویں‘ عدلیہ کے حوالے سے 130ویں اُور میڈیا کے حوالے سے 84 ممالک میں پاکستان 72ویں نمبر پر ہے۔ ایسے میں جبکہ ہر عالمی انڈیکس مثالی نہ ہو تو اُس صورت میں پاکستانی پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی (رینکنگ) میں گراوٹ آنے پر تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے اُور ایسی صورت میں پاکستانیوں کو کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ویزے کے حصول کے لئے سختیوں کا سامنا کرنا بھی تعجب خیز نہیں ہونا چاہئے۔
تیسرا نکتہ: پاکستانیوں کے لئے کسی بھی ملک کا سیاحتی‘ کاروباری یا مختصر معیاد کے قیام کا اجازت نامہ (ویزا) حاصل کرنے کا عمل آسان نہیں ہوتا لیکن تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر چند احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اُور ویزا درخواست دیتے ہوئے غلطیاں نہ کی جائیں تو مشکل آسانی میں تبدیل ہو سکتی ہے جبکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں غلط و مشکوک کوائف کی وجہ سے کوئی بھی ملک ہمیشہ کے لئے ’بلیک لسٹ‘ ہو سکتا ہے اُور یہی وہ مقام ہے جہاں ویزا حاصل کرنے کے خواہشمند بطور احتیاط ’ویزا مشاورتی خدمات‘ فراہم کرنے والوں سے رجوع کرتے ہیں جن میں اکثریت غیرمستند افراد کی ہوتی ہے اُور اُن کا ہدف دھوکہ دہی سے راتوں رات کروڑ پتی بن کر رفوچکر ہونا ہوتا ہے۔ ایسے ’بھوت کنسلٹنٹس‘ سے محفوظ رہنے کے لئے چند تجاویز پر عمل درآمد کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ قبل ازیں کہ اُن تجاویز کا ذکر کیا جائے یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کے تجربات (بالخصوص غلطیوں) سے کچھ سیکھتے ہوں بہرحال بظاہر یہ تجاویز ’وقت ضائع کرنے جیسا بے سود‘ عمل ہے لیکن بہرحال صحرا میں آذان تو دینا ہی ہوگی۔
چوتھا نکتہ: کسی بھی ویزا مشاورت فراہم کرنے والے ادارے کے سربراہ یا منتظم یا نگران یا پاکستان میں نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ’ویزا مائیگریشن ایجنٹ‘ سے 4 بنیادی سوالات پوچھنے چاہیئں۔ 1: جن ممالک کی ویزا مشاورتی خدمات وہ فراہم کر رہا ہے کیا وہ اُن ممالک کی حکومتوں سے سند یافتہ ہے؟ اِس سلسلے میں RICC/CICC نامی تنظیموں کی رکنیت دیکھی جا سکتی ہے اُور کسی مشاورتی ادارے کا RICC/CICC نمبر دیکھ کر اُس کے فیصلوں کی وقعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اِس درجہ بندی کو دیکھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ ادارہ کتنے عرصے سے مشاورتی خدمات فراہم کر رہا ہے اُور وہ کتنا مستند ہے۔ اِس معلومات سے حاصل ہونے والے اعتماد کے بل بوتے پر کسی مشاورتی ادارے کی خدمات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور نہیں کیا جانا چاہئے۔
پانچواں نکتہ: جس ادارے کا ویزا مشاورتی خدمات سے استفادہ کرنے کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے اُور کی ویزا درخواست کی کامیابی کا تناسب کیا ہے؟ ایک مستند کنسلٹنٹ آپ کی خواہشات اُور تجسس کو دیکھ کر نہیں بلکہ صاف الفاظ میں وہ بات کہے گا جو ویزے کا خواہشمند درخواست گزار سننا پسند نہیں کرتا۔ اگر آپ ان کی اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں تو وہ جھوٹی امید دینے کی بجائے آپ کا کیس لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ ویزا مشاورتی ادارے کا بنیادی کام اُسی قسم کی باریک بینی سے ’چھان بین‘ کرنا ہوتی ہے جس قسم کی باریک چھان بین سے کسی ملک کا سفارتخانہ تحقیق کرتا ہے اُور درخواست گزار کی طرف سے آنے والی درخواست کو منظور یا مسترد کرتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ جہاں کہیں کوئی ویزا مشاورتی نجی ادارہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ سوفیصدی ویزا دلوانے کا تجربہ رکھتا ہے تو سمجھ جائیں کہ ایسا عملاً ممکن نہیں ہے البتہ ویزا مشاورتی نجی ادارہ کسی ملک کے ویزے کے لئے دستاویزی ضروریات پوری کرنے یا اُنہیں پورا کرنے کے لئے نشاندہی کرنے میں آپ کی مدد ضرور کر سکتا ہے۔
چھٹا نکتہ: ویزے کے حصول میں مشاورتی خدمات کی کم قیمت بھی اِس کی معیار کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے۔ اگر کوئی ادارہ آپ کی انتہائی حساس معلومات لیتا ہے اُور وہ نہایت ہی کم قیمت میں خدمات فراہم کر رہا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ کے ذاتی کوائف اُور معلومات جنہیں عالمی سطح پر انتہائی حساس معلومات قرار دیا جاتا ہے محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہیں اُور اِن تک غیرمتعلقہ افراد کو رسائی مل سکتی ہے۔ ’ریگولیٹڈ کمپنی‘ یعنی منظم کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ویزا مشاورتی ادارہ معیاری خدمات فراہم نہیں کر سکتا بلکہ کئی ایسی صورتیں جس میں وہ ویزا دلانے کا جھانسہ دے کر آپ کو خطیر رقم سے محروم کر سکتا ہے اُور آپ کی انتہائی حساس معلومات وصول کر کے اُس کا غلط استعمال کر سکتا ہے یا اُسے جرائم پیشہ و دہشت گردی کرنے والوں کو فروخت کر سکتا ہے! آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ بھتہ خور جب کسی کو پرچی بھیج کر رقم کا تقاضا کرتے ہیں تو آپ کی نجی زندگی کے بارے میں ایسی درست معلومات کا ذکر بھی کرتے ہیں‘ جن سے پرچی وصول کرنے والا خوفزدہ ہو جاتا ہے اُور ’ساتواں نکتہ‘ یہ ہے کہ ویزے کی درخواست جمع کروانے کے لئے کسی بھی مشاورتی ادارے کی خدمات حاصل نہ کریں البتہ اُن سے مشورہ کر کے دستاویزی ضروریات کے بارے میں جان لیں اُور پھر ویزا درخواست جمع کرانے کی مشقت خود کریں‘ یہ زیادہ محفوظ طریقہ ہے اُور اِس میں ویزا ملنے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
....