فلسطین : معرکۂ حق و باطل

غزہ کے علاقے میں اسرائیلی وحشت و بربریت کی ننگ انسانیت کاروائیاں 8 اکتوبر سے شروع ہوئیں اُور آج پچیس اکتوبر اٹھارہواں دن اسرائیلی بربریت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ فلسطینی عوام کی نمائندہ تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل کے زیرقبضہ فلسطین کے علاقوں پر میزائل حملوں کے بعد شروع ہوا جس کے بعد اسرائیل نے اپنے مسلسل فضائی اور زمینی حملوں کے ذریعے غزہ کو انسانی آبادی سمیت ملیامیٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حد تو یہ ہے کہ اسرائیل نے سکولوں‘ مدارس‘ مارکیٹوں اور مساجد تک کو بھی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنایا اور بے بس انسانوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیئے۔ غزہ کا علاقہ اس وقت عملاً کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے اور خواتین بچوں سمیت اسرائیلی بمباری اور زمینی حملوں سے شہید ہونیوالوں کی لاشیں اس علاقے میں جابجا بکھری نظر آتی ہیں جنہیں دفنانے کیلئے بھی جگہ کم پڑ گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حملوں سے اب تک پانچ ہزار سے زائد فلسطینی باشندے شہید ہو چکے ہیں اور زخمی ہونیوالے ہزاروں باشندوں کی بے بسی اور کسمپرسی دیکھی نہیں جاتی جنہیں نہ ادویات دستیاب ہیں نہ خوراک۔ اور غزہ کے ہسپتال تباہ ہونے کے باعث زخمی اور انکے لواحقین کھلے آسمان تلے پڑے خدا تعالیٰ اور اپنے مسلمان بھائیوں کو مدد کیلئے پکاررہے ہیں۔ بھوک‘ پیاس کا شروع ہونیوالا انسانی المیہ پورے غزہ میں پھیل چکا ہے جہاں فی الحقیقت کربلا بپا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اقوام عالم میں ان مظلوموں کیلئے انسانیت کی تڑپ بھی نظر نہیں آرہی اور ظالم اسرائیل کے ہاتھ روکنے کے بجائے امریکہ‘ برطانیہ اور انکے حلیف دوسرے یورپی ممالک اس کی پشت پر کھڑے ہوگئے ہیں جس کی غزہ میں جاری بربریت کی نہ صرف اسے تھپکی دے کر حوصلہ افزائی کی جارہی ہے بلکہ اسے جنگی سازوسامان کی شکل میں کمک بھی فراہم کی جارہی ہے۔ امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم نے تو باقاعدہ طور پر اسرائیل جا کر اسرائیلی فوج کے حوصلے بڑھائے اور غزہ میں اسکے حملوں کو جائز قرار دیا۔

مسلم دنیا کو تو اسرائیلی بربریت پر جیسے سانپ سونگھا ہوا ہے جس کی قیادتوں اور نمائندہ تنظیم او آئی سی کی جانب سے محض رسمی مذمتی بیانات اور قراردادوں کے سوا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا جبکہ اسرائیلی بربریت پر نمائندہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ بے بسی کی چادر اوڑھے بیٹھا ہے جس کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مذمت اور اسکے حملے رکوانے کیلئے روس کی پیش کردہ قرارداد کی منظوری تک کی نوبت نہیں آنے دی گئی۔ چنانچہ اسرائیل کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ غزہ میں مساجد کے ساتھ ساتھ گرجا گھروں کو بھی وحشیانہ بمباری کے ذریعے ادھیڑ اور مسمار کررہا ہے۔

اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ میں ایک چرچ اور مسجد پر بیک وقت بمباری کی جس کے نتیجہ میں درجنوں فلسطینی باشندے شہید ہو گئے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اپنے جنگی جنون میں کس طرح عالمی جنگی قوانین و اخلاقیات اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ اس صورت حال میںاسرائیل اور اسکے سرپرستوں امریکہ اور برطانیہ کی مسلم دنیا کیخلاف جنونیت بالآخر پوری دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل دیگی کیونکہ فلسطینیوں کے بہائے جانیوالے خونِ ناحق پر بالخصوص مسلم دنیا آخر کب تک خاموشی اور مصلحتوں کی چادر اوڑھے بیٹھی رہ سکتی ہے۔ اسرائیل کو امریکہ اور برطانیہ کی سرپرستی و معاونت حاصل ہونے کے بعد یقیناً مشرق وسطیٰ‘ عرب ریاستوں اور جنوبی ایشیائی ریاستوں سمیت دنیا میں انسانی بقاءکے حوالے سے بے چینی بڑھ رہی ہے۔ چین اور روس کو بھی اسی تناظر میں خطے کے امن کی فکر لاحق ہے جو علاقائی اور عالمی فورموں پر اسرائیلی بربریت کا سلسلہ رکوانے کیلئے کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں جبکہ مسلم دنیا میں ایران‘ ترکیہ پہلے ہی فلسطینیوں کی عملی امداد و معاونت کی حکمت عملی طے کر چکے ہیں چنانچہ سعودی عرب سمیت عرب ریاستیں بھی بالآخر فلسطینیوں کی حمایت میں عملیت پسندی کی جانب آجائیں گی۔ سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ جاری امن مذاکرات معطل کرنا‘ اسکی جانب سے فلسطین کیلئے عملی کردار کا ہی عندیہ ہے جبکہ پاکستان عملی کردار کیلئے سعودی عرب کی جانب دیکھ رہا ہے جو اسکے فیصلے پر لبیک کہے گا۔ چنانچہ اسرائیلی بربریت کا سلسلہ تادیر جاری نہیں رہ سکتا۔ مسلم دنیا بھی انگڑائی لے گی اور مظلوم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر انکے آزاد وطن کی جدوجہد میں شریک ہوگی تو یقیناً یہ معرکہ حق و باطل ہوگا جس کا راستہ الحادی قوتیں اسرائیل کو ہلاشیری دیکر خود ہموار کررہی ہیں۔