چھاتی کے سرطان سے متعلق آج کے اعدادوشمار کا ایک دہائی پہلے سے موازنہ کیا جائے تو ہمارے سامنے کچھ حیران کن حقائق آتے ہیں۔ خواتین میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص کی اوسط عمر 60 کے بجائے 30 یا 40 سال ہوگئی ہے۔ آج نوجوان لڑکیاں بھی اس بیماری کا شکار ہو رہی ہیں۔ جس سے پاکستان جیسے ممالک کے لیے صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے جہاں دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں چھاتی کا سرطان زیادہ پایا جاتا ہے۔
گلوبوکین 2020ء کے مطابق پاکستان میں 2020ء میں چھاتی کے سرطان کے کُل تشخیص شدہ کیسز کی تعداد 25 ہزار 928 تھی۔ یہ اس سال تشخیص ہونے والے کینسر کیسز کا 14.5 فیصد تھے۔ ’ہر نو میں سے ایک‘ پاکستانی خاتون کا چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہونے کا تناسب بھی کافی خوفناک اور تشویشناک ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں چھاتی کے سرطان سے اموات کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں ہر سال چھاتی کے سرطان کے 83 ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر خواتین کی تشخیص ایڈوانس اسٹیج میں ہوتی ہے۔ خواتین میں خواندگی کی کم شرح کے علاوہ چھاتی کے سرطان کی علامات اور روک تھام کے بارے میں لاعلمی تشخیص میں ہونے والی تاخیر کی بڑی وجوہات ہیں۔
شایدکوئی یہ ماننا چاہے گا کہ حکومت اور این جی اوز کے اقدامات کی وجہ سےخواتین اس سرطان کے خطرے اور اس کے اثرات سے واقف ہوں گی لیکن دیہی علاقوں میں تحقیق اور اعدادوشمار کے جائزے سے افسوسناک حقائق سامنے آتے ہیں۔
امریکن کینسر سوسائٹی کے مطابق 40 سے 44 سال کے درمیان عمر کی تمام خواتین کو سالانہ بنیاد پر میموگرامز کے ذریعے چھاتی کے سرطان کی اسکریننگ کا اختیار دیا جانا چاہیے جبکہ 45 سے 54 سال عمر کی خواتین کو ہر سال میموگرام کروانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں میموگرافی کی سہولت صرف اس طبقے کو دستیاب ہے جو اس کے اخراجات اٹھا سکتا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں اسکریننگ کی سہولیات بہت کم ہیں جبکہ دیہی علاقے تو بنیادی صحت کی سہولیات سے ہی محروم ہیں، اس لیے خصوصی اسکریننگ سروس کی توقع کرنا صرف ایک لاحاصل چیز ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیو تھراپی اینڈ نیوکلیئر میڈیسن کے تعاون سے خیبرپختونخوا کے 7 اسپتالوں میں اسکریننگ یونٹس کے قیام کے منصوبے کے پی سی ون کی منظوری گزشتہ سال دی گئی تھی تاکہ عوام کے لیے ’عالمی معیار کی اسکریننگ سہولیات کی مفت دستیابی‘ کو یقینی بنایا جا سکے۔ منصوبے کو انتظامی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اس میں تاخیر ہوئی لیکن فعال ہونے کے بعد یہ خیبرپختونخوا میں لوگوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔ ایک اور قابل ذکر منصوبہ اندرون سندھ شکار پور میں ’خاص‘ اسپتال ہے جس کا حال ہی میں افتتاح ہوا ہے۔
اگرچہ حکومت اور این جی اوز کی جانب سے آگاہی پھیلانے کی کاوشیں قابلِ شتائش ہیں لیکن مستقبل کی صحت کی پالیسی کے فریم ورک میں ٹھوس خصوصیات کی ضرورت ہے جیسے کہ دور دراز کے علاقوں میں مزید اسکریننگ سینٹرز اور ضرورت مند مریضوں کے لیے سبسڈی والے BRCA میوٹیشن ٹیسٹنگ کا انتظام ہونا چاہیئے کیونکہ ہم اس بات کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ کینسر کے کُل کیسز میں چھاتی کے سرطان کی سالانہ شرح 12.5 فیصد ہے۔