خطرناک بات تو یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے افراد اپنے ’دشمن‘ سے ہی لاعلم ہیں، انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں کہ یہ دشمن انہیں کس طرح نقصان پہنچارہا ہے، اور اس سے نمٹنے کے لیے انہیں کیا کرنا چاہیے؟
گزشتہ دو ڈھائی سال کے دوران کلائمیٹ چینج (موسمیاتی تبدیلی) کے حوالے سے ملک اور بیرون ملک کافی کانفرنسز اور سیمینارز ہوچکے اور یہ سلسلہ جاری ہے، ہمارے ہاں ملکی میڈیا پر بھی اس سے متعلق آگہی فراہم کی جاتی ہے، مگر موسمیاتی تغیرات جس تیزی سے تباہی پھیلارہے ہیں، پاکستان اس کے آگے بند باندھنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں۔
رواں ماہ عالمی سائنسی جریدے بایو سائنس نے ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اس سال کے تین ماہ یعنی جون، جولائی اور اگست اب تک ریکارڈ گرم ترین تھے جو تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار برسوں میں سب سے زیادہ گرم تھے۔ مذکورہ رپورٹ میں سائنس دانوں نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی زمین پر زندگی کے وجود کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہے، انسانوں کی جانب سے ایسی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے زمین کا درجہ حرات بڑھ رہا ہے، جب سے تیل، گیس اور کوئلے کے استعمال کا آغاز ہوا ہے دنیا کا مجموعی درجہ حرارت تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ گیا ہے، یہ ایندھن گاڑیاں چلانے، کھانا پکانے، گھروں کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات کو بے دریغ ختم کرنے سے بھی گلوبل وارمنگ یا عالمی تپش میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان نے دس سال کے دوران تاریخ کے دو بدترین سیلابوں کا سامنا کیا ہے مگراس تباہی کے باوجود سرکاری پلیٹ فارمز کے ذریعے ملکی و عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی اور ملک کو اس سے لاحق خطرات کے پیش نظر خاطر خواه پالیسی یا حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی۔
پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی آفات کے نشانے پر ہیں۔
یہ خطرے کی بات ہے کہ پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں جبکہ ہمالیہ اور ہندو کش پہاڑی سلسلے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں لگ بھگ تین ہزار گلیشئل لیکس بن گئی ہیں۔ یعنی یہ نہریں گلیشیئرز کے پگھلنے کے باعث بنی ہیں۔ ان تین ہزار میں سے تین درجن کے قریب ایسی نہریں ہیں جو کسی بھی وقت سیلاب کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کو روکا تو نہیں جاسکتا مگر اس کے آگے بند ضرور باندھا جاسکتا ہے اور ہم نے چترال میں اس بات کا مشاہدہ بھی کیا کہ ہلال احمر نے چترال بالا کے دو گاؤں میں حفاظتی دیواریں تعمیر کرکے درجنوں گھروں کو سیلاب سے محفوظ کردیا ہے، اس کے علاوہ ہلال احمر کی جانب سے مقامی افراد کو قدرتی آفات سے نمٹنے کی تربیت بھی فراہم کی جارہی ہے، اسکولوں میں طلبہ کو باقاعدہ ٹریننگ دی گئی کہ وہ کسی بھی قدرتی آفت کا کس طرح سامنا کریں اور خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یہ قابل تعریف اور قابل قدر اقدامات ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے عفریت سے بچنے کے لیے صرف ایک دو تنظیمیں نہیں ہمیں من حیث القوم اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔