عالمی منظرنامہ : غزہ صورتحال

امریکی اور دنیا بھر کے اخبارات کی رپورٹ کے مطابق روس اور امریکہ نے بدھ (25 اکتوبر) کو ایک دوسرے کی قراردادوں کے مسودے کے خلاف ووٹ دیا جس نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری جنگ سے نمٹنے کے لیے کسی بھی متفقہ ردعمل پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تعطل کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ روس نے جب قرار داد پیش کی تو اس موقع پر البانیہ، ایکواڈور، فرانس، گھانا، جاپان، مالٹا، موزمبیق اور سوئٹزرلینڈ غیر حاضر رہے۔ قرارداد منظور کرنے کے لیے کم سے کم نو اراکین کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ امریکی قرارداد میں اسرائیل کو دفاع کا حق ہونے پر زور دیا گیا تھا جبکہ روس کی جانب سے پیش مسودے میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج غزہ کے شہریوں کو شمال سے بے دخل کرنے کا مطالبہ منسوخ کرے اس کا یہ سلسلہ 75برسوں سے جاری ہے وہ ایک قابض ہے اور اس کے خلاف حماس کی کاروائی درست ہے اور حماس کو اس کا حق حاصل تھا۔

 تاس نیوز کے مطابق حماس کا وفد روسی جمہوریہ چیچنیا کے سربراہ رمضان قادریوف دعوت پر روس پہنچا ہے۔ روسی جمہوریہ چیچنیا کے سربراہ رمضان قادریوف نے فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی اپنے فوجی امن مشن کے طور پر فلسطین بھیجنے کی بھی پیشکش کی ہے۔ رمضان قادریوف کا کہنا تھا کہ میں عالمی برادری سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کم ازکم ایک بار متفقہ طور پر فلسطین کے حوالے سے منصفانہ فیصلہ کریں۔ اب یہ بھی معلوم ہوا ہے فلسطین جانے لیے حماس اور جمہوریہ چیچنیا کے سربراہ رمضان قادریوف سے معاہدہ بھی ہو گا۔


ایک سینئر اسرائیلی سیکورٹی اہلکار نے آبزرور کو بتایا، ’’اسرائیل غزہ کے علاقے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے اور وہاں کام ختم کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف ہمیں شمال میں اسرائیلی آبادی کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے‘‘۔ دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ شمالی سرحد پر نہیں رہ سکتے، حزب اللہ ان سے 100 میٹر سے بھی کم دور ہے۔ وہ سرحد پار کر سکتے ہیں اور چند منٹوں میں انہیں مار سکتے ہیں۔ جب سے اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد غزہ کے خلاف جوابی کارروائی کی ہے، لبنان میں قائم اسلامی ملیشیا گروپ نے بارہا اسرائیلی بستیوں پر فائرنگ کی ہے، جس سے اسرائیل کو شمالی سرحد کو خالی کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے، جس میں کریات شمونہ شہر بھی شامل ہے۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق صدر جو بائیڈن اور اعلیٰ امریکی دفاعی عہدیداروں نے اپنے تل ابیب کے دوروں کے دوران اسرائیلی قیادت پر زور دیا کہ وہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں پر حملے کا خطرہ مول نہ لیں، جس پر وزیر اعظم نیتن یاہو آخرکار خاموش ہو گئے۔