انسانی خوبیوں میں اُس کے خاندانی پسِ منظر، ماحول اور ذاتی محاسن کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے، حدیثِ پاک میں ہے: ’’لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں، اُن میں سے جو زمانۂ جاہلیت میں بہتر تھے، وہ اسلام سے مشرف ہونے کے بعد بھی دین کی سمجھ حاصل کر کے بہتر ثابت ہوئے‘‘۔ (مسلم) اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ ماحول، پسِ منظر، نسبی اور شخصی فضیلت انسان کے جوہرِ قابل کو مزید نکھارتی ہے، صحابۂ کرام اس کی روشن مثال ہیں۔
اس کی مثال میں تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنی ذات سے دیتا ہوں، میرے والد صاحب کے چار بھائی تھے، گائوں سے ہٹ کر اپنی آبائی زمین میں سب بھائی طویل عرصے تک مشترکہ خاندان کے طور پر رہتے رہے، پھر جب اولاد بڑی ہوگئی، سب تعلیم وروزگار کے سلسلے میں منتشر ہوگئے، تو سب بھائی الگ ہوگئے۔ ہم سب آپس میں چچا زاد اور بعض خالہ زاد بھی تھے، دوسری چچیاں بھی کسی نہ کسی خاندانی رشتے سے جڑی ہوئی تھیں۔ ہم بچپن اور لڑکپن میں آپس میں کھیلتے بھی رہے، اسکول میں بھی ایک ساتھ تعلیم پائی، لیکن گالی کا کوئی تصور ہمارے خاندان میں نہیں تھا، کیونکہ ہر گالی یا تہذیب سے گرے ہوئے لفظ کا نشانہ دوسرے سے پہلے خود بنتے۔ بعد میں مدرسے میں بطورِ استاذ یا کالج یونیورسٹی میں بحیثیت ِ پروفیسر پڑھاتے ہوئے غصے میں زیادہ سے زیادہ زبان پر اُلّو یا گدھے کا لفظ آتا تھا اور وہ بھی بہت نادر، نالائق یا بدتمیز کے الفاظ بھی ہمارے غصے کے اظہار کے لیے کافی تھے۔ اب حال یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اور اَشرافیہ کے لوگ ملک کے اعلیٰ اداروں میں تعلیم پاتے ہیں، پھر اُن میں سے بعض آکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ ہیں، ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اُن کی زبانوں پر تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ کیسے آجاتے ہیں، لازماً پسِ منظر میں کہیں نہ کہیں کوئی تربیتی اور تہذیبی نقص موجود ہے، اسی کو جینیاتی ورثہ یا مینوفیکچرنگ فالٹ کہتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کی توہین، تمسخر واستہزاء، طعن وتشنیع، عیب جوئی، غیبت، بدگمانی، بہتان تراشی اور کردار کُشی رائج الوقت فیشن بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا تصور لوگوں کے ذہنوں سے نکل گیا ہے، مخالفین کی صورتیں بھیانک حد تک بگاڑی جاتی ہیں، یہ ساری باتیں شریعت میں ممنوع ہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب مذہبی تنظیموں سے وابستہ بعض جذباتی لوگ بھی یہ کام کر رہے ہیں اور اپنی دانست میں وہ اسے دین کی خدمت سمجھتے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ خدمتِ دین پر انسان اللہ تعالیٰ سے اجر کا امیدوار ہوتا ہے اور حرام پر اجر کی امید رکھنا بھی حرام ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے (ترجمہ) ’’جس نے گناہ کے ذریعے مال کمایا اور اُس سے صلۂ رحمی کی یا صدقہ کیا یا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا (تو اس پر ثواب کی توقع تو درکنار) اُسے جہنم میں ڈالا جائے گا‘‘۔ (الترغیب والترہیب) علامہ شامی نے فتاویٰ ظہیریہ کے حوالے سے لکھا: ’’ایک شخص نے فقیر کو حرام مال دیا اور اس پر اس نے ثواب کی امید رکھی، تو کافر ہوجائے گا اور اگر فقیر کو بھی اس کی بابت معلوم تھا (کہ یہ مالِ حرام ہے) اور اس نے اُس کے لیے دعا کی اور دینے والے نے آمین کہا، تو دونوں کافر ہوجائیں گے‘‘، (ردالمحتار) اس فقہی رائے کو شدید ترین تنبیہ سمجھا جائے۔