پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن پہلی ایشیائی فضائی کمپنی تھی جس نے لندن اور یورپ کے بعد امریکہ کیلئے بھی پروازیں براہ راست شروع کیں۔1964ء میں چین کیلئے پہلا فضائی رابطہ قائم کرنیوالی پہلی غیر کمیونسٹ ایئر لائن پی آئی اے تھی۔ پی آئی اے کے عروج کے دنوں میں ایئر مارشل اصغر خان بھی اسکے سربراہ رہے جنہوں نے محض تین سال کے اندر اسکی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ ایئر مارشل اصغر خان نے فضائی میزبانوں کا نیا یونیفارم ایک فرانسیسی ڈیزائنر سے تیار کروایا جسکے چرچے دنیا بھر میں تھے۔ تب پی آئی اے اپنے تمام شعبہ جات میں خود کفیل تھی۔ انجینئرنگ، ٹیکنیکل گراؤنڈ سپورٹ، پیسنجر ہینڈلنگ، مارکیٹنگ، سیلز، فلائٹ آپریشن اور دیگر شعبہ جات کے علاوہ پروازوں میں کھانا فراہم کرنے کیلئے اپنا کچن رکھتی تھی۔
اسکے عروج کا یہ عالم تھا کہ دنیا کی بڑی ایئر لائنز کے پائلٹس کراچی میں پی آئی اے کی تربیت گاہ میں تربیت حاصل کرتےتھے۔ ایمریٹس ایئرلائن، سنگاپور ایئرلائن، جارڈینین ایئر لائن، اور مالٹا ایئر کے پائلٹس کو پی آئی اے نے تربیت دی،1965 ء کی جنگ میں پی آئی اے نے دفاع وطن میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اور چین سے اہم دفاعی آلات پاکستان منتقل کیے۔1985 ء میں ایمریٹس ایئر لائن کھڑی کرنے میں پی آئی اے نے اہم کردار ادا کیا۔25 ؍اکتوبر 1985 ء کو ایمرٹس ایئر لائن نے جو پہلی اڑان بھری وہ دبئی سے کراچی کی طرف تھی اور اس کے دونوں پائلٹ فضل غنی، فرسٹ آفیسر اعجاز الحق اور فضائی میزبان پاکستانی تھے۔ دوران پرواز مہمانوں کو پاکستانی کھانا فراہم کیا گیا۔یہاں تک کہ اس کا کوڈ نیم EK رکھا گیا۔E سے مراد امارات جبکہ K سے مراد کراچی تھا۔ عروج کے زمانے میں پی آئی اے اپنے طیارے غیر ملکی فضائی کمپنیوں کو لیز پر دیا کرتی تھی۔
عروج کا یہ دور 1990ء تک جاری رہا، تاہم اس دہائی سے پی آئی اے کا زوال بھی شروع ہو گیا۔ سیاسی تقرریوں،من پسند چیئرمینوں کا تقرر،مہنگے ترین جہاز لیز پر لینے،اور منافع بخش روٹس نجی فضائی کمپنیوں کو بیچے جانے جیسے اقدامات نے اس عالمی فضائی کمپنی کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نجی ایئر لائنوں کے مالکان کو پی آئی اےکا چیئرمین بنایا گیا۔سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے نااہل اور نالائق افراد نے پی آئی اے میں دھڑے بازی اور یونین سازی کو فروغ دیا۔
ائر لیگ،پیپلز یونٹی، اور پالپا جیسی تنظیموں کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک افراد کی 15سے زائد تنظیمات نے پی آئی اے کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ نان پروفیشنل اور کرپٹ افسران نے یورپ امریکہ اور کویت جیسے منافع بخش سٹیشن بند کر دیے۔90 ء کی دہائی کے بعد حالت یہ ہو گئی کہ کراچی جہاں کی ایئر ٹریفک پر پی آئی اے کا راج تھا وہ اسکے ہاتھ سے نکل گیا۔ پی آئی اے پرپہلا بڑا وار14 جولائی 1998ء کو کیا گیا جب اس وقت کی حکومت نے امارات ایئر لائن کو کراچی اور پشاور کیلئے پروازوں کی اجازت دی جبکہ کچھ ماہ بعداسلام آباد اور لاہور کی فضا بھی انکے حوالے کردی گئی۔2013 میںجب وہی لوگ دوبارہ حکمران بنے تو انہوں نے سیالکوٹ کیلئے بھی ایمریٹس کو پرواز کرنے کی اجازت دی 2015ء میں ملتان بھی ان کیلئے کھول دیا۔
یہ حکمران اپنی ایئرلائن کے بجائے غیر ملکی فضائی کمپنیوں کو ترجیح دیتے۔ پی آئی اے پر آخری بڑا وار گزشتہ حکومت کے وزیر ہوا بازی سرور خان نے یہ کہہ کر کیا کہ ہمارے پائلٹ جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہوئے ہیں۔اس بیان کے بعد پورے یورپ میں پی آئی اےکے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی۔اب اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ان حکمرانوں نے پی آئی اےکے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے غیر ملکی ایئر لائنوں کے مفادات کا تحفظ کیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی آئی اے کے منافع بخش روٹس پی آئی اے کے پاس ہی رہتے۔اوپن اسکائی پالیسی کے اصول و ضوابط طے کیے جاتے جس طرح کہ دنیا بھر میں کیے جاتے ہیں۔ اپنے ادارے کی سرپرستی کی جاتی۔لیکن ذاتی اور کاروباری مفادات کی خاطر پی آئی اےکا بیڑا غرق کر کے غیر ملکی اور نجی ایئر لائنوں کی سرپرستی کی گئی جس کا نتیجہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔آج زوال کا یہ عالم ہے کہ ایک ایک دن میں 40، 40 ملکی اور غیر ملکی پروازیں منسوخ ہو رہی ہیں۔ عالمی رینکنگ میں سامان گم کرنے والی پانچویں بڑی ایئر لائن پی آئی اے ہے۔