ساٹھ ستر برس پرانی تصویر میں فلسطین ایک جدید متمدن اور مہذب ریاست اور باشندوں کی سرزمین نظر آتی ہے جس نے اپنے اندر کثیر القومی اور کثیر المذہبی ثقافت کو پوری طرح سمو رکھا تھا۔ جہاں یہودی، عیسائی اور مسلمان ایک دوسرے کے شانہ بشانہ فلسطین کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کررہے تھے۔ فلسطین کا نام تاریخ اور زمین سے کھرچا جا رہا تھا اور اس کی راکھ میں اگر کچھ باقی رہتا تو اسے غزہ، مغربی کنارہ اور راملہ کہا جارہا تھا۔ باقی جو کچھ بچ رہا تھا وہ اوّل تا آخر اسرائیل تھا گویا یہ ساٹھ ستر برس اُبھرنے والا وجود ہی اصل حقیقت قرار پا رہا تھا۔ دنیا اس منظر نامے کو قبول کر رہی تھی کیونکہ مدعی سست گواہ چست کا معاملہ کب تک چل سکتا ہے جب عرب ریاستیں اور حکمران اسرائیل کی راہوں میں بچھے جا رہے تھے تو باقی دنیا کو فلسطینیوں کی حمایت میں سرگرمی دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ یوں فلسطین دنیا کے نقشے سے تیزی سے تحلیل ہو رہا تھا اور اسرائیل نگاہوں کو خیرہ کردینے والی حقیقت کے طور پر اُبھر رہا تھا اور اس اُبھار میں حقیقت سے زیادہ تاثر کا دخل تھا۔
فلسطین کے ہمسایوں کو یہ باور کرادیا گیا تھا کہ اب اسرائیل ہی حقیقت ہے جبکہ فلسطین ایک افسانہ ہے۔
فلسطینیوں کے پاس بچے کھچے علاقے بھی ان کے پیروں تلے سے سرکائے جا رہے تھے۔ ایسے میں فلسطینیوں کے پاس دو ہی راستے ہی کہ وہ اس طوفان کو اپنے سروں کے اوپر سے گزرجانے دیں اور خود کا حالات کے دھارے اور رحم وکرم پر چھوڑ دیں یا پھر موت میں زندگی کا سامان تلاش کریں۔ فلسطینیوں کا فلسفہ ٔ زندگی یہاں ان کی راہنمائی کو آگیا اور انہوں نے اس بدترین صورت حال میں موت میں زندگی کی تلاش کرنے کا راستہ تلاش کرلیا۔ اس سے پہلے کہ اسرائیل انہیں ماردیتا انہوں نے اپنی شرط پر موت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کی حفاظت کا نظام ’’آئرن ڈوم‘‘ ہی توڑ پھوڑ کر نہیں رکھا بلکہ اسرائیل کے گرد تقدس اور ناقابل تسخیر ہونے کا مصنوعی دفاعی حصار بھی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔
اسرائیل نے موت خوف قید وبند اور دہشت کا سار انصاب صرف فلسطینی بستیوں کے لیے تیار کیا تھا پہلی بار فلسطینیوں نے یہ نصاب اسرائیل کی جغرافیائی حدود کے اندر بھی پڑھایا اور جنگ کا دائرہ اسرائیل کے اندر تک پھیلا دیا۔ اسرائیل کے فوجیوں کو یرغمال بنا کر انہیں یرغمال بنانے اور قید ہونے کا سبق پڑھایا۔ اسرائیل کی آبادیوں میں سائرن بجا کر اور ایمبولینسوں کے ہوٹر بجوا کر اور اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کروا کر یہ بتایا کہ یہ سب کچھ قدرت نے صرف فلسطینیوں کا مقدر نہیں کیا بلکہ اسرائیل بھی ان حالات کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس طرح جو عرب اور ان کے زیر اثر مسلمان ملک اپنی زراعت، تجارت دفاعی ٹیکنالوجی، سیاحت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے سراب کے پیچھے یروشلم کی طرف سرپٹ بھاگ رہے ٹھٹک کر رہ گئے۔ ان کے مشرق وسطیٰ میں آگ اور دھویں کے بادلوں کو دیکھ کر رک سے گئے اور یوں دنیا کا منظر بدل گیا تاثر کا فسوں ٹوٹ گیا اور حقیقت ایک بار پھر عیاں ہو کر رہ گئی۔