ووٹ کی اہمیت اُور ووٹ کا حق

پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک بھر میں کی گئی حالیہ حلقہ بندیوں کے نتیجے میں جو نتائج جاری کیے گئے ان کے مطابق ملک میں تقریباً 2 کروڑ نئے ووٹرز رجسٹرڈ ہوئے، جن میں تقریباً آدھی تعداد خواتین کی ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 تھی اور اب یہ تعداد 12 کروڑ، 69 لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ اس فہرست میں مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 85 لاکھ 8 ہزار 258 ہے اور خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 84 لاکھ 72 ہزار 14 ہے۔

الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 23 لاکھ 10 ہزار 582 ہے اور سندھ میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 66 لاکھ 51 ہزار 161 ہے۔ خیبر پختونخوا میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 16 لاکھ 92 ہزار 381 ہے، بلوچستان میں ووٹرز کی تعداد 52 لاکھ 84 ہزار 594 ہے، اسلام آباد میں ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 41 ہزار 554 ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں 18 سے 35 سال عمر کے ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 70 لاکھ 95 ہزار 197 ہے۔ 36 سے 45 سال کے ووٹرز کی کل تعداد 2 کروڑ 77 لاکھ 94 ہزار 708 ہے، 46 سے 55 سال عمر کے ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 81 لاکھ 24 ہزار 28 ہے، 56 سے 65 سال کے ووٹرز کی مجموعی تعداد 1 کروڑ 18 لاکھ 89 ہزار 259 ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں 66 سال سے زائد عمر والے ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 20 لاکھ 77 ہزار 80 ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ابتدائی حلقہ بندیوں کے نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیوں میں کراچی کے قومی اسمبلی حلقوں کے نمبرز تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں صوبائی اسمبلی کی 3 جبکہ قومی اسمبلی کی 1 نشست میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں کراچی کا پہلا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 236 (ملیر1) تھا جو اب این اے 229 (ملیر1) بن گیا ہے، اسی طرح ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق ضلع ملیر 229، 230 اور این اے 231 پر مشتمل ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں این اے 237 کی آبادی 6 لاکھ 73 ہزار 678 تھی اور رجسٹرڈ ووٹرز 2 لاکھ 83 ہزار 882 تھے، جن میں مرد ووٹرز ایک لاکھ 62 ہزار 495 اور خواتین ووٹرز ایک لاکھ 21 ہزار 387 شامل تھے۔ جب کہ نئی حلقہ بندیوں کے ابتدائی نتائج کے مطابق اب اس حلقہ (این اے 230) کی آبادی 7 لاکھ 86 ہزار 160 ہوگئی ہے۔

قبائلی علاقوں میں خواتین زیادہ تر گھر کی چار دیواری تک ہی محدود رہتی ہیں اور شہر میں آنے کے باوجود ہماری ثقافت میں تبدیلی نہیں آئی، کیوں کہ وہاں کے لوگ خواتین کا گھروں سے باہر نکلنے کو اچھا نہیں سمجھتے۔ اپنے گھر کی خواتین کو پولنگ اسٹیشن نہ بھیجنے کی ایک اور وجہ وہاں پر بہتر انتظامات نہ ہونا بھی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ووٹ کاسٹ کرنے کے دوران خواتین کے ساتھ دھکم پیل اور بدتمیزی بھی ہورہی ہوتی ہے، چونکہ یہ تماشا سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس لیے ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ کوئی اپنے گھر کی خواتین کو ایسے ماحول میں بھیجیں۔

اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کا موقف کافی دلچسپ ہے۔ جس کا کہنا ہے کہ انتخابی حلقوں میں خواتین کے ووٹ 10 فیصد سے کم کاسٹ ہوں گے، اس لئے الیکشن کمیشن نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ وہاں کا انتخاب تسلیم نہیں کیا جائے گا، تاہم ایسی شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں کہ صرف قبائلی علاقوں ہی میں نہیں بلکہ شہری و دیہی علاقوں میں بھی مرد حضرات اپنے گھر کی خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکتے ہیں، اس کےلیے الیکشن کمیشن کی صوبائی سطح پر مختلف کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں جو وقتاً فوقتاً آگاہی مہم چلاتی رہتی ہیں اور اس کےلیے سکول، کالجز، یونیورسٹیز میں طلبہ اور طالبات سے بات چیت کی جاتی ہے جس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔

خواتین کو ووٹ دینے کی اجازت نہ دینے سے متعلق سوال پوچھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ پشتون کمیونٹی سمیت الیکشن کمیشن کے نمائندے ان تمام علاقوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں سے اس قسم کی شکایات موصول ہوتی ہیں الیکشن کمیشن کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ خواتین کےلیے الگ پولنگ بوتھ قائم کریں اور خواتین کے پردے اور سیکیورٹی سے متعلق ہر قسم کے انتظامات بروقت مکمل کیے جائیں۔

خواتین کو ووٹ ڈالنا چاہیئے لیکن بدقسمتی سے یہاں پر اس طرح کے انتظامات نہیں کیے جاتے جس ماحول میں خواتین کی پرائیویسی یا پھر پردہ قائم رہتے ہوئے وہ اپنا بنیادی حق ادا کرسکیں۔ مختلف قبائلی اضلاع اور یہاں تک کہ اندرون سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں  میں بھی عورت کے ووٹ ڈالنے پر پابندی لگائی جاتی ہے اور اس کام کےلیے اس حلقہ کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوجاتی ہیں۔ خواتین کو ووٹ دینے کا حق اُس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک سیاسی جماعتیں اپنے طرزعمل میں تبدیلی نہیں لاتیں۔