ویٹی کن سٹی سے جاری بیان میں پوپ فرانسس نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جلد از جلد سیزفائر ڈیل ہو جائے لیکن سوال یہی ہے کہ فرانسس اپنے ہی عقیدت مندوں امریکا، فرانس، جرمنی اور بہت حد تک برطانیہ سے بھی اسرائیل اور حماس کے مابین جلد از جلد سیزفائر ڈیل ہو جائے کی خواہش پوری نہیں کرواسکتے ہیں یا کروانا نہیں چاہتے؟ اس سلسلے میں بتانا چاہتا ہوں کہ رومن کیتھولک کلیسا کا سب سے بڑا پادری جسے یسوع مسیح کے رسول مقدس پطرس کا سلسلہ وار جانشین سمجھا جاتا ہے۔ اس کی رہائش روم کے وسط میں واقع ایک خود مختار ریاست میں ہے۔ جس کا نام ویٹی کن سٹی ہے۔ شروع میں پوپ مسیحیوں کا نہ صرف مذہبی رہنما بلکہ ان کا سیاسی حاکم اعلیٰ تصور کیا جاتا تھا اور اب یہی اختیار پاپائے روم کو دوبارہ یروشلم میں چاہیے جس کا اظہار اعلانیہ نہیں کیا جاتا لیکن حقیقت یہی ہے۔ پاپائے روم نے مزید کہا کہ غزہ میں بہت زیادہ ظلم بڑھ چکا ہے اور وہاں فوری طور پر امدادی سامان کی ترسیل کی ضرورت ہے لیکن وہ جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر قطعی دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ویٹی کن سٹی کا عقیدہ یہ ہے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا رہے وہ یسوع مسیح کی آمد کے لیے کر رہا ہے۔ جس کے بعد یروشلم عیسائوں کی حکومت ہو گی اور وہاں کا سربراہ ’’پاپائے روم‘‘ کہلائے گا۔
موجودہ حالات کی طرح 2001ء ستمبر 9/11 سانحے میں بھی یہ بات صاف نظر آرہی تھی کہ اسلامی حکومتوں کے حکمران اسلام سے محبت اور اس کے نفاذ کی جدو جُہد کے لیے کام کرنے بجائے افغانستان پر امریکا کی بمباری اور مسلمانوں کے قتل عام میں اسلامی حکومتیں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی اور ہے کہ دنیا بھر کی اسلامی حکومتیں ناپائیدار، ناکام، ضعیف اور کمزور حکومتیں ہیں جن کو امریکا نے یہ بات سمجھا دی ہے کہ وہ اگر اپنی جگہ سے جنبش بھی کرنے کی کوشش کریں گی تو ان کا وجود مکمل طور سے ختم ہو جائے گا اور ان کی پوری حکومت کو پتھروں کی دنیا میں تبدیل کر دیا جائے۔ کمزور اسلامی حکومتیں اپنے اپنے ملک کو ناپائیدار رکھنے کے لیے بہت اہم و موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس وقت بھی دنیا میں جہاںجہاں بد امنی اور گھٹن ہے اس کی وجہ ناکام اور کمزور حکومتیں ہی ہیں۔ اس کے برعکس دنیا میں جہاں مضبوط حکومتیں ہیں وہاں پائیداری اور امن و ترقی صاف نظر آتی ہے۔ پورے عالم ِ اسلام سے اس وقت غیر مسلم زیادہ فائدہ اْٹھا رہے ہیں۔ عالم اسلام میں بحران کی وجہ سے سیاسی طور پر امریکا اسلامی ممالک سے سب سے زیادہ فائدہ اْٹھا رہا ہے۔ اسلامی ممالک جن میں افغان، ایران، شام، لبنان، لیبیا، عراق میں 20برسوں امریکا کارپیٹ بمباری کر رہا ہے۔ یہی سلسلہ آج غزہ میں ہو رہا ہے۔
دنیا بھر کے حکمران اب اسرائیلی افواج کو حملہ آور کے بجائے عالمی اخبارات کے ذریعے ’’دفاعی اسرائیلی فوج‘‘ بتا رہے ہیں۔ غزہ کے جنوبی علاقوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے خان یونس سے فلسطینیوں کے انخلا کو تیز تر بنانے کا حکم دے دیا ہے۔ دریں اثناء برطانیہ اسرائیلی یرغمالیوں کی تلاش میں مدد کے لیے نگران پروازیں شروع کرے گا۔ ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے گزرے ہفتے کی رات اور اتوار کے دن غزہ میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بہانے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ رائٹرز کے مطابق اسرائیلی دفاعی افواج نے بتایا کہ غزہ میں ’’دہشت گردوں کے انفرا اسٹرکچر‘‘ کو نشانہ بنانے کی خاطر جنگی جیٹ اور ہیلی کاپٹر تعینات کر دیے ہیں۔ لیکن غیر جانبدار اخبارات یہ بتا رہے ہیں کہ اسرائیل اپنی اس پالیسی پر مکمل طور سے عمل کر رہا ہے کہ ’’غزہ پر قبضے کے لیے ہر صورت وہاں سے فلسطینیوں کو بھگا دیا جائے یا ان کو دفن کر دیا جائے‘‘۔