نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، اس انتہائی حساس نوعیت کے جوہری میزائل کے اڈے کو نشانہ بنانے سے حماس کے سات اکتوبر کے حملوں کی شدت و اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ راکٹ اڈے کی حدود میں گرا، تاہم یہ میزائل کی بیٹری اور ایک ریڈار کے درمیانی علاقے میں گرا تھا۔ جہاں خشک پودوں کی جھاڑی موجود تھی جس میں آگ بھڑک اٹھی۔ اسرائیل نے خبر جاری کی ہے نیو یارک ٹائمز خبریں کس کے کہنے پر لگاتا ہے اس بارے میں سوشل میڈیا کے دور میں معلوم کرنا مشکل نہیں رہا۔ یہ بات اب بھی ایک فلسفہ ہے کہ فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو کیے گئے راکٹ حملوں میں اسرائیل کا ایک ایسا حساس فوجی اڈہ بھی نشانے پر رہا جہاں جوہری میزائل لانچ کرنے کی فوجی سہولت موجود تھی۔ نیو یارک ٹائمز یہ بھی بتا رہا ہے کہ سیٹلائٹ کی مدد سے لی گئی تصاویر نے بھی حماس راکٹ حملوں سے اس جوہری میزائلوں سے لیس فوجی اڈے پر آگ کے بھڑکنے کے مناظر دیکھے ہیں۔ تاہم یہ آگ اڈے سے متصل خشک گھنی جھاڑیوں اور پودوں میں راکٹوں کی وجہ سے لگی تھی۔ یہی حقیقت جس کے بارے میں اسرائیل نہیں بتا رہا ہے۔
اٹامک انرجی ایجنسی یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اسرائیل کا یہ اڈہ ’سڈاٹ مائیکا بیس‘ وسطی اسرائیل میں واقع ہے۔ اس فوجی اڈے پر اسرائیلی فوج نے اپنے جوہری میزائل ذخیرہ کر رکھے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر کو اس جگہ پر آگ لگی دیکھی گئی۔ تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اسرائیلی جوہری ہتھیاروں کی زد میں خطے کے کون کون سے ملک آ سکتے ہیں اور ان غیر اعلانیہ ہتھیاروں کے بارے میں جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کو کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔ واضح رہے اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اسرائیل نے کبھی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ البتہ سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی کابینہ میں غزہ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے آپشن پر غور سے متعلق ایک کابینہ کے رکن کا بیان سامنے آنے سے یہ واشگاف ہو گیا کہ اسرائیل نے غیر اعلانیہ طور پر جوہری ہتھیار بنا رکھے ہیں، یا اس نے اپنے کسی اتحادی طاقت سے جوہری ہتھیار حاصل کیے ہیں۔ یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ اسرائیل کے ان جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ ہدف کون سے ملک ہو سکتے ہیں کیونکہ اسرائیل کے غیر اعلانیہ ایٹمی ہتھیاروں کی رینج غزہ سے باہر پورے خطے پر آسانی سے محیط ہے۔
اس انکشاف کے بعد علاقے میں فطری طور پر اسرائیلی جوہری ہتھیاروں کے بارے میں تشویش ابھری ہے۔ ترکیہ کے صدر نے اس سلسلے میں جوہری توانائی کے امور سے متعلق بین الاقوامی ادارے کو بھی متوجہ کر رکھا ہے۔ لیکن حسب ِ دستور امریکا سمیت کسی مغربی ملک یا بین الاقوامی جوہری ادارے نے اسرائیلی وزیر کے اس انکشاف کے بعد بھی سنجیدگی ظاہر نہیں کی تھی۔ اب نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ سے یہ مسئلہ ایک بار پھر ابھرا ہے۔ تاہم اسرائیل نے اس تازہ رپورٹ کے بارے میں بھی کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں ’فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس‘ کی مرتب کردہ معلومات یہ ہیں کہ اسرائیل کے مذکورہ فوجی اڈے پر 25 سے 50 کی تعداد کے درمیان جوہری ہتھیار ہیں۔ یہ جوہری ہتھیار جریکو میزائلوں کی صورت میں ہیں جو جوہری وار ہیڈ سے لیس ہیں۔ رپورٹ میں نیور یارک ٹائمز نے میزائل تھریٹ پروجیکٹ کے سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نام کے تھنک ٹینک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جریکو 3 میزائل ٹھوس ایندھن کے حامل ہیں اور درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بلیسٹک میزائل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان اسرائیلی میزائلوں کی لمبائی ساڑھے پندرہ سے سولہ میٹر تک ہے اور ان کا قطر ایک اعشاریہ چھپن میٹر تک ہے۔ اس میزائل کا وزن اندازاً 29ہزار کلو گرام جبکہ اس کی صلاحیت 1000 سے 1300 کلو گرام کا جوہری بارود گرانے کی ہے۔ تاہم یہ میزائل 750 کلو گرام تک جوہری وار ہیڈز سے لیس ہیں اور ان کی رینج 4800 سے 6500 کلو میٹر تک ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ساری صورتحال اسرائیل کی شکست کے سوا کچھ بھی نہیں بس اس کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے فوری بعد اسرائیل کے عبرانی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کے انتہاپسند وزیر جنگ یوا گیلانت نے کہا ہے کہ حماس کی مکمل نابودی اور تمام صہیونی یرغمالیوں کی غیرمشروط رہائی تک جنگ روکنا محال ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کے خلاف جنگ میں شکست کی صورت میں ہمارے لیے خطے میں مزید قیام کرنا ناممکن ہوگا۔ حماس کے خلاف حملے کسی بھی صورت میں نہیں روکے جائیں گے۔ یہ جنگ اسرائیل کے مستقبل کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔