عام انتخابات کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے کیونکہ انعقاد پر نہ صرف بہت بڑی رقم درکار ہوتی ہے بلکہ کافی محنت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اِن کے انعقاد پر ملک و قوم کے مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے، چنانچہ انتہائی ضروری ہے کہ اِن کا انعقاد آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور قطعی شفاف ہو اور کسی کے لیے بھی انگلی اُٹھانے کی گنجائش باقی نہ رہے ورنہ تو یہ کہ یہ محض ایک مشقِ رائیگاں ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ عام انتخابات کے غیر متنازعہ ہونے کے سلسلہ میں ہمارے ماضی کا تجربہ اچھا نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کی غیر اطمینان بخش کارکردگی اور سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی اور دھاندلی کی وجہ سے عام انتخابات متنازعہ ہی رہے، چونکہ ملک کی سلامتی اور نیک نامی کا تقاضہ یہ ہے کہ آیندہ عام انتخابات پر کسی کو نہ تو کوئی اعتراض ہو اور نہ کوئی شکوہ شکایت۔
عام انتخابات کے قابلِ قبول ہونے کے لیے اشد ضروری ہے کہ اِن کی ہر پل نگرانی کے لیے ایک متفقہ پینل موجود ہو جو ایسے ارکان پر مشتمل ہو جن کا ماضی اور کردار صاف و شفاف ہو۔ بین الاقوامی میڈیا اور فرشتہ صفت افراد اِس نگراں پینل میں شامل ہوں۔نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کا کردار بھی زیادہ اچھا نہیں ہے۔
اِسی لیے تو شاعر کو مجبور ہوکر یہ کہنا پڑا کہ
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
وطنِ عزیز کے حالات انتہائی دِگر گوں ہو چکے ہیں۔ریاست ہے تو سیاست بھی ہے۔ گستاخی معاف اب تک ہمارے بیشتر سیاستدانوں نے اِس پاک وطن کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھا ہوا ہے۔ بابائے قوم کی رحلت کے بعد حکمرانی کی ہوس میں ہمارے تمام حکمرانوں نے حصولِ اقتدار کو اپنا ہدف اور مقصد سمجھا ہوا ہے۔
یہ اِسی کا شاخسانہ ہے کہ ملک کے لگ بھگ تمام ادارے بے ضابطگی اور بے اعتباری کا شکار ہیں۔ بانی پاکستان نے جو خواب دیکھا تھا اُس کی تعبیر کے دور دور تک کوئی امکانات تو کُجا آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ہر سال کی طرح اِس سال بھی قائد کا یومِ پیدائش بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔ قائد کی عظمت کے گُن گائے گئے اور ترانے سنائے گئے لیکن اُن کے اقوالِ زریں اور ہدایات پر عمل کرنے کی کسی کو بھی توفیق نہ ہوئی۔
قائد کی بے حرمتی کا عالم یہ ہے کہ مقتدر اداروں کو قائد نے جو ہدایات دی تھیں اُن کا کسی نے کوئی خیال نہیں رکھا، اگر ایسا کیا جاتا تو ملک کے حالات بہت بہتر ہوتے اور نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ قوم کی اِس سے زیادہ بے حسی کیا ہوگی کہ جن کرنسی نوٹوں پر قائدِ اعظم کی تصویر چھپی ہوئی ہے وہ رشوت ستانی کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اے قائد ہم شرمندہ ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا پودا وطنِ عزیز میں جڑ نہیں پکڑسکا جس کی وجہ سے ہمارا نظام کمزور ہے جب کہ بھارت میں صورتحال اِس کے برعکس ہے۔ جمہوریت کے تسلسل کے نتیجے میں بھارت کی معیشت، معاشرت اور سیاست مضبوط ہے۔
ریاست کی مضبوطی بھی اِسی کے باعث ہے۔ جمہوریت کے ثمرات اِس کا فطری نتیجہ ہیں۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ہماری 75 سالہ سیاسی تاریخ عدم استحکام سے عبارت ہے۔
مسلسل غیر یقینی کی صورتحال کی دیمک نے ہماری معیشت کو چاٹتے چاٹتے کھوکھلا کر دیا ہے جس کی وجہ سے نہ تو اندرونی سرمایہ کاری ہورہی ہے اور نہ بیرونی۔ ظاہر ہے کہ اگر استحکام نہیں ہوگا تو پھر کوئی سرمایہ کار اپنی پونجی کو داؤ پر لگانے کے لیے آمادہ اور تیار نہیں ہوگا، اس لیے عام انتخابات کا انعقاد انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
عام انتخابات کے چرچے تو مدتِ دراز سے ہو رہے تھے لیکن اِن کے انعقاد کا امکان تذبذب کا شکار تھا۔ قیاس آرائیوں کا ایک سلسلہ تھا جو ختم ہونے کو نہیں آرہا تھا۔
کوئی کچھ کہتا تھا اور کوئی کچھ۔ جتنے منہ تھے اُتنی باتیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور شُکر ہے کہ اِس غیر یقینی صورتحال سے نجات حاصل ہوئی اور انتخابات کے انعقاد کی ایک حتمی تاریخ مقرر ہوگئی جس کا کریڈٹ ہماری عدالتِ عظمیٰ کو جاتا ہے۔
جوں جوں وقت گزر رہا ہے انتخابات کی سرگرمیاں اور تیاریاں زور پکڑ رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے روز و شب مصروف ہے۔ عام انتخابات منعقد کرنے کے لیے جو خطیر رقم درکار تھی اُس کا بندوبست بھی ہوگیا ہے۔
اِس کے علاوہ جس عملے کی ضرورت تھی اُس کی فراہمی کے انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ ملک کے عوام اور رائے دہندگان میں بھی جوش و خروش پایا جارہا ہے اور اُس مبارک دن اور تاریخ کا شدت کے ساتھ انتظار کیا جا رہا ہے جب یہ بیل منڈھے چڑھے گی۔