سال 2024 کا آغاز ہے اور پاکستان کو اس وقت جمہوری اور مضبوط منتخب عوامی حکومت کی ضرورت ہے جو معاشی اصلاحات کرسکے اور اس وقت ووٹرز کی سب سے بڑی خواہش بس یہی ہے کہ ان کی مالی بہتری کیلیے کام ہو۔
ایک نئی منتخب حکومت کے وزیروں کو اب مسائل کی نشاندہی نہیں بلکہ ان کے حل پیش کرنا ہوں گے۔ موجودہ نگراں حکومت کے دور سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھنا ہوگا اور آئندہ آنے والی حکومت کو ان میں سے کچھ پالیسیوں کا فروغ جاری رکھنا چاہیے تاکہ وہ منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں، امداد فراہم کرنے والے عالمی اداروں، دوست ممالک اور خیرخواہوں کی جانب سے اس سال کے دوران کسی قسم کی مزید رعایت ملتی نظر نہیں آتی اور عالمی ادارے پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان بنتے بگڑتے معاملات سے زیادہ مطمئن نظر نہیں آتے۔
عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے دی گئی شرائط گو بہترین حل نہیں ہیں تاہم قرض لینے والا ملک اپنی مرضی سے محروم ہوتا ہے، نئی حکومت کے قیام کے بعد نقصان میں چلنے والے اداروں، بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے نقصانات کو وفاق کے بجائے صوبوں پر تقسیم کرنے، سرکاری ترقیاتی کاموں، صحت، تعلیم، زرعی شعبے کیلیے زر اعانت، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھنے کیلیے کسی قسم کی سیاسی تاخیر اور نااہلیت کی گنجائش نہیں ہوگی، صوبوں، ضلعوں اور مقامی حکومتوں کو ترغیب اور محرک دینا ہوگا کہ وہ سروسز سیکٹر سے اپنے محاصلات وصول کرسکیں اور رئیل اسٹیٹ، زراعت اور رٹیل سیکٹر کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
مقامی شرح سود کو اگر 15 سے 17 فیصد کی شرح پر رکھا جائے تو اس سے بچت کی حوصلہ افزائی ہوگی اس کے علاوہ رئیل اسٹیٹ میں بے تحاشا سرمایہ کاری کو قابو کرنا ہوگا ،آئندہ دو برسوں کیلیے اہداف کا تعین کیا جانا چاہئے اور مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح کو 15 فیصد سے زاید لے جانے کیلیے پوری کوشش کرنی چاہیے ۔