سال 2023 میں سپریم کورٹ میں بھی تقسیم اور دھڑے بندی کا تاثر غالب رہا۔
معاشرے کے دیگرطبقات کی طرح سال 2023 میں سپریم کورٹ میں بھی تقسیم اور دھڑے بندی کا تاثر غالب رہا جس نے ہائی پروفائل اور حساس کیسز سے نمٹنے کے حوالے سے ادارے کو کمزور بنایا۔ حتیٰ کہ پہلی بار پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 نافذ کرکے عدالت عظمیٰ کے اندرونی کام کو ریگولیٹ کیا، اس قانون کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان کے صوابدیدی اختیارات کو محدود کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ڈھانچے میں دراڑیں 2019 میں اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئیں جب فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔
پہلی سماعت میں ہی ایک جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے نو رکنی لارجر بینچ میں دو ججوں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی شمولیت پر اعتراض کیا۔ ازخود نوٹس کیس میں عدالت کا حکم جاری نہ کرنے پرنیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
دریں اثنا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک اکثریتی بنچ نے مفاد عامہ کے معاملات کو سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم تک سننے سے روک دیا۔ تاہم چیف جسٹس بندیال نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نوٹیفکیشن کے ذریعے اس عدالتی حکم کو نظر انداز کیا بعد ازاں انہوں نے ہم خیال ججوں پر مشتمل چھ رکنی لارجر بنچ بنا کر جسٹس فائز کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔
سابق چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بنچ نے 13 اپریل کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ2023 کو معطل کر دیا۔ اس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ اور سابق چیف جسٹس بندیال کے درمیان ان کے چیمبر میں سخت الفاظ کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے نفاذ کے بعد سے جسٹس فائز عیسیٰ کسی بینچ کا حصہ نہیں بنے۔
سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری پر بھی سینئر ججوں کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔ سابق چیف جسٹس بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ عدلیہ میں تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کی جائیگی۔ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عہدہ سنھبالتے ہی پہلے دن فل کورٹ طلب کیا۔
انہوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف درخواستوں کی سماعت کیلیے فل کورٹ تشکیل دی اور کارروائی براہ راست ٹی وی پر نشر کی گئی۔ فل کورٹ نے اکثریت کیساتھ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کوآئینی قرار دے دیا۔
عدالت عظمیٰ کے اندر دھڑے بندی کا تاثر اب بھی برقرار ہے۔ جے سی پی رولز میں ترامیم پر غور کرنے کیلئے جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں کمیٹی کی تشکیل کی منظوری دی گئی۔ یہ کمیٹی 15 جنوری تک اپنی رپورٹ پیش کریگی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے کمیٹی کی تشکیل کی مخالفت کی۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنا رہی ہے۔
عبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر منحصر ہے کہ اعلیٰ عدلیہ پر ملی بھگت، اثر و رسوخ استعمال کرنے اور بزدلی کے ان الزامات کو کیسے جھٹلاتے ہیں جنہوں نے نثار، گلزار اور بندیال کے ادوار کو لپیٹ میں لئے رکھا۔