سال گزشتہ نے قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی صورت حال سے پورے ملک کو ایک عذاب میں مبتلا رکھا۔ حکومت، سیاست، معیشت، عدالت، قیادت اور عوام سب ابتلا و مسائل سے دوچار رہے۔
11 جماعتی پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنی ناقص کارکردگی کے قومی تاریخ کے ریکارڈ قائم کیے، ان کے 16 ماہ کے دور حکومت میں مہنگائی کا گراف گزشتہ 70سالوں میں بلند ترین مقام پر رہا جس کا تسلسل آج بھی قائم ہے۔ ڈالر تین سو روپے سے تجاوز کرگیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ریکارڈ بلند ترین سطح تک رہیں۔
غربت کی سطح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ عام آدمی کے لیے 2024 میں جینے کا سامان کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سیاسی بساط پر 11جماعتوں نے مل کر بھی کوئی غیر معمولی کارنامہ انجام نہ دیا بلکہ حکومت اپوزیشن کی محاذ آرائی اور سیاسی رسہ کشی میں پارلیمنٹ کا وقار مجروح ہوتا رہا۔
ایوان عدل کے دروازے پر بڑے سوالیہ نشان لگتے رہے۔ انصاف خود اپنی تلاش میں سرگرداں رہا۔ منصفوں نے خود کو اِدھر اور اُدھر میں تقسیم کر کے ایوان عدل کا اعتبار کھو دیا۔ یہ منظر آج بھی عدل کی کوکھ سے نئے سوالوں کو جنم دے رہا ہے۔
پی ڈی ایم حکومت کی ناقص کارکردگی کا تسلسل بدقسمتی سے اب بھی جاری ہے بلکہ اس میں مزید شدت اور تیزی آتی جا رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ 2024 الیکشن کا سال ہے اور 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔
نگران حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد اور اس کی اولین ذمے داری ہے کہ ملک میں الیکشن کمیشن کے ذریعے شفاف، منصفانہ اور آزادانہ و غیر جانبدارانہ الیکشن کو یقینی بنائے۔ تمام سیاسی جماعتیں جو الیکشن میں حصہ لینا چاہتی ہیں انھیں انتخابی مہم چلانے اور پورے انتخابی عمل میں برابر کی شرکت کو یقینی بنائے۔
کسی جماعت کو کسی بھی قسم کی کوئی انتخابی شکایت ہو تو اس کے ازالے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔ بجا کہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس ضمن میں اپنے بیانات جاری کیے ہیں لیکن عملی طور پر نتیجہ دیکھنا چاہیے۔ انتخابی عمل میں جانبداری ہونا چاہیے اور انتخابات کو ڈی ریل نہیں ہونا چاہیے؟ حکومت کو انتخابات میں غیر جانبدار ہونا چاہیے۔
مبصرین اور تجزیہ نگار بھی شروع سے حکومت اور الیکشن کمیشن کے طرز عمل پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ اب معاملات مختلف ہونا چاہیے اور تمام جماعتوں کو بلا امتیاز الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے اور کسی کا راستہ نہیں روکنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کی غیو جانبداری کا تاثر گہرا کرنا چاہیے۔
پاکستان کے آئین 1973 کی کتاب میں بنیادی حقوق کے حوالے سے بڑی وضاحت اور صراحت سے لکھا ہے کہ بنیادی حقوق جمہوری نظام میں شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھی سے عوام کے حقوق اور آزادیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حقوق کا صرف ضبط تحریر میں لے آنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ان پر عمل درآمد بھی ضروری ہے جس سے جمہوری اداروں کو تقویت ملتی ہے اور عوام میں بھی خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 8 میں کہا گیا ہے کہ ریاست کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جس کا مقصد بنیادی حقوق سلب کرنا ہو۔
آئین کے آرٹیکل 9 کے مطابق پاکستان کے تمام شہریوں کو آزادی اور زندگی کا تحفظ بہم پہنچایا جائے گا۔ دستور کے مطابق پاکستان کے تمام شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہیں۔ انھیں تحریر و تقریر کی بھی آزادی حاصل ہے۔
دفعہ 16 کے تحت ہر شہری کو قانون کی حدود میں رہتے ہوئے ہتھیاروں کے بغیر ایک جگہ جمع ہونے کا حق حاصل ہے۔ دستور میں پاکستان کے تمام شہریوں کے وقار کے تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔
آپ گزشتہ حکومت کے ادوار دیکھ لیجیے کہ کس کس کے وقار کو مجروح کیا گیا ہے۔ صحافیوں سے لے کر سیاستدانوں اور عام آدمی تک سب کے بنیادی حقوق پامال کیے گئے۔ کتنے صحافی جان کی بازی ہار گئے اور کتنے غائب کیے گئے۔ حکومتوں نے مخالف سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالا اور انھیں انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔
عدالتی احکامات اور فیصلوں سے دانستہ صرف نظر کیا گیا۔ آزادانہ بولنے اور لکھنے پر پابندیاں رہیں۔ کیا یہ سب کچھ آئین میں ہر شہری کو دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہیں؟ اب نئے سال میں 8فروری کو ہونے والے الیکشن شفاف، منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے؟
اگر ایسا نہیں ہوا تو کیا تمام سیاسی جماعتیں 2024 کے انتخابی نتائج کو من و عن تسلیم کرلیں گی؟ توقع کی جانی چاہیے کہ نیا سال 2024 ملک اور قوم کے لیے نیک شگون ثابت ہوگا۔ پاکستانی عوام کے دکھ اور مسائل کم ہوں گے۔
نئی حکومت سے ملک میں معیشت اور جمہوریت کو استحکام ملے گا۔ آئین و قانون کی حکمرانی ہوگی۔ پارلیمنٹ کا وقار بلند ہوگا۔ دہشت گردی کا خاتمہ اور امن قائم ہوگا، بیرون وطن ملک کا اعتبار اور وقار قائم ہوگا۔