پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا رجحان بھلے ہی کمزور پڑچکا ہے مگر دنیا بھر میں یہ رجحان محض برقرار نہیں بلکہ پروان چڑھ رہا ہے۔
تمام ہی معاشروں میں ہارڈ کاپی کا استعمال گھٹ رہا ہے اور لوگ سوفٹ کاپی میں زیادہ دلچسپیی لے رہے ہیں۔ جو لوگ مہنگی کتب یعنی ہارڈ کاپی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے وہ سوفٹ کاپی پر گزارا کرتے ہیں اور یوں ان کے ذہن کا افق وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔
مغرب میں کتب بینی آج بھی ایک اچھی عادت کے روپ میں زندہ ہے۔ اسکول کی سطح پر بچوں کو مطالعے کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ نصابی سرگرمیوں میں کتب بینی بھی کسی نہ کسی طور شامل رکھی جاتی ہے۔
آئی ٹٰی سیکٹر کی ٹیکنالوجیز نے کتب بینی آسان بنادی ہے اور دنیا بھر میں کروڑوں افراد نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے زیادہ پڑھ رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کی طرح بیشتر ترقی پذیر معاشروں میں بھی لوگ پڑھنے کی عادات کو کسی نہ کسی شکل میں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ سوفٹ کاپی کے مقبولیت کے باوجود ہارڈ کاپی کی خریداری کا رجحان بھی برقرار ہے۔
نیا سال شروع ہوا ہے تو ذہنوں میں یہ سوال بھی ضرور گردش کر رہا ہوگا کہ اس سال کون کون سی کتابوں کی اشاعت متوقع ہے اور کون کون سی کتابیں بیسٹ سیلر کا درجہ پاسکیں گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 2024 میں مصنوعی ذہانت سے متعلق شائع ہونے والی کتابیں غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار رہیں گی۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ان کی زندگی کو کس طور بدل سکتی ہے اور کس طرح ایک نئی دنیا معرض وجود میں آسکتی ہے۔ جن لوگوں کی معاشی سرگرمیوں کو مصنوعی ذہانت سے خطرات لاحق ہیں وہ بھی بہت کچھ جاننا اور سیکھنا چاہتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بہت جلد شائع ہونے والی کتابوں میں ”اے آئی نیڈز یو“ اور ”ہیومن مینیفسیٹو“ نمایاں ہیں۔ موخر الذکر کتاب ویریٹی ہارڈنگ نے لکھی ہے جو پہلے گوگل ڈیپ مائنڈ سے وابستہ تھے۔ اس کتاب کے ذریعے لوگ جان سکیں گے کہ آج کی دنیا میں مصنوعی ذہانت کس حد تک رو بہ عمل ہے اور اسے زندگی کا حصہ بنائے رکھنے کے ساتھ اس سے نپٹنے کے لیے ہمیں کیا کیا کرنا پڑے گا۔
مصںوعی ذہانت کے حوالے سے میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹٰیکنالوجی کی ڈینییلا روز کی کتاب ”دی ہارٹ اینڈ دی چِپ : اور برائٹ فیوچروِد روبوٹس“ بھی نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔
نئے سال میں جیو پالیٹکس سے متعلق کتابیں بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہیں گی۔ ڈیل کوپلینڈ نے ایک کتاب میں خاصے وقیع اعداد و شمار کی مدد سے بتایا ہے کہ کس طور تجارت نے امریکی خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا ہے۔ ہر دور کی طرح آج بھی امریکی مفادات معاشی مفادات سے منسلک ہیں۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ کو دنیا بھر میں ایسا بہت کچھ کرنا پڑتا ہے جس سے اس کی معیشت زیادہ سے زیادہ مستحکم رہے۔
”پوٹن اینڈ دی ریٹرن آف ہسٹری“ میں مارٹن سِگزاسمتھ نے تاریخی حقائق کے تناظر میں روسی صدر کی جارحیت پسندی کو مدلل انداز سے پیش کیا ہے۔ اس کتاب کی مدد سے آج کے ان حالات کو سمجھنے میں مدد ملے گی جو کسی نئی عالمی جنگ کی طرف لے جارہے ہیں۔ اس کتاب میں چین اور روس کے تیزے سے ابھر کر سپر پاور بننے کے امکان پر بھی وقیع بحث کی ہے۔
فکشن کی دنیا میں پرسیول ایوریٹ، یان مارٹیل، ڈیوڈ نکلز، کلے ریڈ، کوم ٹوئبن اور ایمور ٹائولز کی نئی تخلیقات کے ساتھ دوبارہ آمد ہوگی۔ جیمز پیٹرسن نے ”جیوراسک پارک“ کے مصنف مائیکل کرچٹن کا ادھورا مسودہ مکمل کیا ہے جس کی جلد اشاعت متوقع ہے۔
”تنہائی کے سو سال“ سے عالمگیر شہرت پانے والے گیبریل گارشیا مارکیز کا ایک غیر مطبوعہ ناولٹ رواں سال شائع ہوگا۔ ان کا انتقال 2014 میں ہوا تھا۔ رواں سال نیٹفلکس والے ”تنہائی کے سو سال“ بھی ویب سیریز کی شکل میں پیش کریں گے۔