کتاب کہانی : رائچوئلز آف الیکشنز آف پاکستان

سرکردہ ریسرچ اور سروے کمپنی گیلپ پاکستان کے بانی اور چیئرپرسن ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کے گیارہ انتخابات اور ایک سبق: پاکستانی انتخابات ایک ایسا عمل ہیں جس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ 

ان کی کتاب ’’رائچوئلز آف الیکشنز آف پاکستان (1970تا 2018) زیر اشاعت ہے جس میں انہوں نے مختصراً آئندہ انتخابات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور کہا ہے کہ میرا خیال ہے کہ 8 فروری 2024 کو ہونے والے بارہویں قومی انتخابات ایک خوش آئند اقدام ہیں۔ ان انتخابات کے نتیجے میں موجودہ سیاسی بحران حل ہونے کا امکان نہیں لیکن ممکنہ طور پر ان کے حل کیلئے ضروری سیاسی تنظیم نو کیلئے وقفہ فراہم کر سکتے ہیں۔ 

دوہزاراٹھارہ تک ہونے والے گیارہ انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ہمیں جو سبق سمجھ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ اب تک 1970ء کے بعد سے پاکستان میں انتخابات اوسطاً ہر چار سال بعد منعقد ہونے والی ایک معقول رسم ہے، اس رسم کے معیار یا درستگی کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی بجائے، جو بات پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ پیداورا کی صورت میں اس رسم کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ 

انہوں نے لکھا ہے کہ یہ انتخابی عمل گول گھومنے کے انداز میں آگے بڑھتا ہے جس کے تحت ہر چکر کے اختتام پر بغیر کسی پیشرفت کے ہم نقطہ آغاز پر واپس پہنچ جاتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، یہ عمل جمہوری یا آئینی نظم و ضبط کے راستے پر کسی ٹھوس پیش رفت کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیداوار فراہم نہیں کرتا۔ ہمارے پاس اس بات کے کیا شواہد ہیں؟ 

انہوں نے کہا کہ شواہد کیلئے ہمیں پاکستان میں ہونے والے گیارہ انتخابات میں سے ہر ایک کا بغور جائزہ لینا ہوگا، جن پر کتاب میں مفصل انداز میں بات کی گئی ہے۔ 

اعجاز شفیع کا کہنا ہے کہ ہمارا مطالعہ کہتا ہے کہ معمولی استثناء کے ساتھ، گیارہ قومی انتخابات (1970-2018) میں سے ہر ایک انتخاب ایک کثیر قسط والے ڈرامے کی سات کارروائیوں (ایکٹس) کی نقل کرتے ہوئے سات مراحل سے گزرا۔ ڈرامے کی کہانی یہ ہے کہ یہ ہمیشہ گزشتہ قسط کے نقطہ آغاز کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ کہانی بتدریج آگے نہیں بڑھتی۔ اس طرح انتخابات کا اعلان کیا جاتا ہے، انتخابی مہم شروع ہو کر ختم ہو جاتی ہے جس کے بعد انتخابی معرکہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں حکومت تشکیل پاتی ہے۔ راستے میں حائل کئی رکاوٹوں کے باوجود، ایک منتخب حکومت قائم ہو کر کام شروع کر دیتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد حکومت کے منتخب اور غیر منتخب طبقوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسے جیسے یہ کشیدگی بڑھتی ہے، منتخب حکومت کا کردار اپنی قانونی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی صورتحال کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ بہر الحال، غیر یقینی صورتحال ختم ہو جاتی ہے اور نئے انتخابات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کے سات ایکٹ معمولی نمائشی تبدیلیوں کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں۔ 

اپنی کتاب میں انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے گیارہویں راؤنڈ (2018ء تا 2023) کا انجام بھی وہی ہوا جو گزشتہ دس کا ہوا تھا۔ یہ ان سات ایکٹس یا رسومات سے گزرا جن کی نشاندہی ہم نے اس کتاب میں کی ہے۔ یہ راؤنڈ بھی حکومت کے منتخب اور غیر منتخب طبقوں کے درمیان کشیدگی کے ساتھ عروج پر پہنچا جس کے نتیجے میں نظام ٹوٹ گیا۔ سیاسی حکومت جمہوریت اور اچھی حکومت بننے کی جانب کوئی پیش قدمی کیے بغیر جہاں تھی وہیں آ کر ٹھہر گئی۔ اعجاز شفیع مزید لکھتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات سے مماثلت کے باوجود گیارہویں الیکشن ایک لحاظ سے اہم تھے۔ ان انتخابات نے ایک ایسی چیز کو جنم دیا جس کی شناخت ہم نے اس کتاب کے تیسرے باب میں خلل ڈالنے والے سیاسی کلسٹر کے طور پر کی ہے۔ ایک خلل ڈالنے والے سیاسی کلسٹر کے طور پر پی ٹی آئی کا ابھرنا 1970 کے انتخابات میں ایک فرق کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ابھرنے کے مترادف ہے۔ پیپلز پارٹی نے خوشحالی میں غریبوں کے حصے کیلئے آواز بلند کی تھی جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار میں متوسط اور اپر کلاس کے حصے کیلئے آواز اٹھائی۔ اس فرق پر غور کرنا بیحد ضروری ہے کیونکہ یہ مسابقتی سیاست اور کثیر الجماعتی جمہوریت کیلیئے موزوں ماحول کو بحال کرنے کیلئے ضروری تبدیلی کے اقدامات کیلئے اثرات مرتب کرے گا۔ 

وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے ہم کتاب کا اختتام پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران پر مظاہر کا ایک مجموعہ پیش کرتے ہوئے کرتے ہیں جو اس کتاب کے اختتامیے کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ 8 فروری 2024 کو ہونے والے بارہویں قومی انتخابات ایک خوش آئند اقدام ہیں۔ ان انتخابات کے نتیجے میں موجودہ سیاسی بحران حل ہونے کا امکان نہیں لیکن ممکنہ طور پر ان کے حل کیلئے ضروری سیاسی تنظیم نو کیلئے وقفہ فراہم کر سکتے ہیں۔ سات عکاسیوں کا ایک مجموعہ موجودہ سیاسی بحران کی نوعیت اور اس کے حل کیلئے مجوزہ راستے کے بارے میں میرے تجزیے کا خلاصہ کرتا ہے۔ اس موضوع پر مکالمہ شروع کرنے کیلئے جو مجوزہ راستہ وضع کیا گیا ہے اسے اس مختصر مقالے کی معمولی شراکت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔