سیاسی نظام : آٹھ خامیاں

ملک کی تین اہم سیاسی جماعتوں کے موجودہ رہنما آٹھ اہم خامیوں کا شکار ہیں جن کی وجہ سے شہریوں کو اپنے آپشنز پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ ماضی کی ایک فرسودہ میراث کو لے کر چل رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو روایتی قدامت پسند نظریات، ذاتی عناد، تنگ نظری، سرکاری خرچ پر عمرہ اور سائنسی ناخواندگی سے آزاد نہیں کر سکے۔ وہ اب بھی حلف ناموں، فوٹو کاپیوں اور گریڈ 17 کی تصدیق کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس ایسی سائنسی ہنر مندی، یا عقل مندی، سوچ اور خیالات نہیں ہیں کہ وہ قوم کو درپیش مستقبل کے پیچیدہ چیلنجوں سے نمٹ سکیں۔ دوسرا، ہمارے موجودہ امیدواروں میں سے کسی میں بھی اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی جرأت اور حوصلہ نہیں ہے۔ گزشتہ حکومتوں، دیگر جماعتوں یا اداروں پر الزام تراشی اور قربانی کا بکرا بنانے سے لگتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم نے کبھی کسی لیڈر کو آگے آتے، اور یہ تسلیم کرتے ہوئے نہیں سنا کہ ’’میں ناکام ہو گیا ہوں، میں معافی چاہتا ہوں، میں نے استعفا دے دیا ہے‘‘۔

تیسرا، ہمیں ایسے رہنماؤں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو اداروں کی تعمیر کے بجائے صرف اپنے ذاتی وفادار ملازموں کے ذریعے یا چند منتخب افراد کی خوشنودی کے ذریعے حکومت چلاتے ہیں۔ اور اس انتظام پر یقین رکھتے ہیں۔ سینئراعلیٰ سرکاری افسران کی تنخواہوں اور مراعات میں بے تحاشا اضافہ، اور صوابدیدی فنڈز کے طور پر اربوں کا خرچ رشوت سے بھرے طرز حکمرانی کی صرف دو مثالیں ہیں۔ چوتھا، یہ امر پاکستان کے لیے خود کشی کے مترادف ہو گا کہ مستقبل کا ایسا لیڈر ہو جس کے پاس افزائش آبادی کی شرح یا ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں کوئی اعداد و شمار نہ ہوں۔ کسی بھی موجودہ لیڈر نے گزشتہ ادوار میں اس مسئلے سے نہیں نمٹا ہے اور نہ ہی یہ ان کے مستقبل کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ آبادی کے کنٹرول کے فوری اقدامات کے بغیر، پاکستان بربادی کے دہانے پر ہے اور موجودہ امیدوار اپنے پرانے خیالات، عقائد اور تنگ نظری سے اس تباہی کو مزید قریب کردیں گے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ، انہی لیڈروں کو منتخب کرنا تباہ کن ہوگا جن کی پالیسیوں اور غفلت نے 28 ملین سے زیادہ بچوں کو اسکول اور تعلیم سے محروم کردیا ہے۔ ان کے پاس اس بارے میں کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ کس طرح تمام بچوں کو اسکولوں میں تعلیم فراہم کی جائے۔ موجودہ اسکولوں میں کیسے اصلاح کی جائے یا ان بچوں کی صلاحیتوں کو کیسے بڑھایا جائے، سیکھنے کی لگن، کام کی اخلاقیات اور تعلیم میں تخلیقی صلاحیتوں کو کیسے بڑھایا جائے۔ ہمیں ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دینا چاہیے جو بچوں کے لیے اچھی تعلیم کا بندوبست کریں گے۔ چھٹا، ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دینا چاہیے۔ جنہوں نے 32 ہزار روپے کی کم از کم اجرت کے مقابلے میں کراچی کی سڑکوں پر 15 ہزار روپے ماہانہ پر جھاڑو دینے والے ہزاروں صفائی کارکنوں (جن میں سے 20 فی صد بچے ہیں) کی حالت بدلنے کے لیے کچھ نہیں کیا؟

ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دیں؟ جو دس لاکھ یا اس سے زیادہ پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کے مسائل پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ جو دن میں 12 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ لیکن انہیں قانونی کم از کم اجرت کا ایک تہائی ادا کیا جاتا ہے۔ عوام ان ہی لیڈروں کو ووٹ کیوں دیں؟ جنہوں نے ریلوے کے ہزاروں قلیوں کے مسائل پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی۔ جو اپنی روزانہ کی کمائی کا ایک تہائی خون چوسنے والے ریلوے ٹھیکیداروں کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستانیوں کو ایسے لیڈروں کو ووٹ کیوں دینا چاہیے؟ جو اشرافیہ سے عیاشی والی مراعات اور پنشن چھیننے کے بجائے، امیروں کو نوازیں اور غریبوں کو کچل کر تفاوت کو فروغ دیں۔

ساتویں، موجودہ حکمرانوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے، پنشن میں اصلاحات لانے، تمام شہریوں کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے یا دستاویزی معیشت کو فعال کرنے جیسے سنجیدہ مالیاتی اقدامات کرنے کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی، دلچسپی یا صلاحیت نہیں ہے۔ جو کچھ بھی نیم دلی سے کیا جاتا ہے وہ بھی ڈونر ایجنسیوں کے دباؤ پر کیا جاتا ہے۔ آخر یہ وہی لیڈر ہیں جو سرکاری محکموں میں سیاسی بنیادوں پر ہزاروں ملازمین بھرتی کرتے ہیں اور سیکڑوں سینئر بیوروکریٹس کو سیاسی احسانات کے طور پر ترقی دیتے ہیں۔ ہم نے انسانی وسائل کے لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک کے سرکاری محکموں کے ساتھ ہر پاکستانی سرکاری محکمے کا موازنہ کیا، ہم نے پاکستانی دفاتر اور محکموں میں کم از کم پانچ گنا زیادہ عملہ پایا۔

ایک شہری کی جانب سے حال ہی میں ’معلومات کے حق‘ کی درخواست پر معلوم ہوا کہ ہماری عدالت عظمیٰ 16 معزز ججوں اور 687 ریگولر ملازمین کے ساتھ کام کرتی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور درخواست کے جواب میں جو برطانیہ کی عدالت عظمیٰ کے بارے میں تھی، بتایا گیا کہ 12 ججوں کی خدمت صرف 64 باقاعدہ ملازمین کرتے ہیں۔ مقابلے میں حصہ لینے والا کوئی بھی لیڈر نہیں سمجھتا کہ ہماری بڑے جثہ والی حکومت اور بھیڑ سے بھرے محکموں کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیرفعالیت کس حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ ہمیں ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو اس بڑے بیوروکریسی کے پہاڑ کی تنظیم نو کریں اور ایک دبلی پتلی، موثر اور ڈیجیٹل حکومتی ڈھانچہ تشکیل دیں۔