عام انتخابات اُور نوجوان ووٹر

’’یاد رکھیے، آپ اپنے ووٹ کی طاقت سے کسی بھی حکومت کو ہٹا کر نئی حکومت لا سکتے ہیں مگر اس مقصد کے لیے لڑائی جھگڑا یا کوئی منفی طریقہ استعمال نہ کیجیے۔

آپ کے پاس طاقت ہے لیکن اسے استعمال کرنے کا فن آپ کو آنا چاہیے۔اس مشینری و میکنزم کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔‘‘

(قائداعظم محمد علی جناح،21 مارچ 1948ء ، ڈھاکہ میں عوام سے خطاب)

آٹھ فروری کو وطن عزیز میں چودھویں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔اس موقع پر’’ بارہ کروڑ پچاسی لاکھ پچاسی ہزار سات سو ساٹھ ‘‘پاکستانی اپنے ووٹ کا استعمال کر سکیں گے۔خاص بات یہ ہے کہ ان ووٹروں میں اٹھارہ سے پینتیس سال کے نر وزن ووٹروں کی تعداد 44 فیصد سے زائد ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آٹھ فروری کو ان نوجوان اور جوان ووٹروں کی بڑی تعداد ووٹ دینے نکل آئی تو کوئی سا بھی اپ سیٹ یا غیرمعمولی واقعہ ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔ گویا ایک لحاظ سے جوش وجذبے اور نئی امنگوں والے یہ ووٹر حالیہ انتخابات میں بادشاہ گر بن گئے ہیں۔

نئی نسل کا گروہ

یاد رہے ، تکنیکی طور پہ اٹھارہ سے پچیس سال کے لڑکے لڑکیاں نوجوان اور چھبیس سے پینتیس سال کے جوان کہلاتے ہیں۔روایتی طور پہ ووٹروں کے اس چیدہ گروہ نے پچھلے عام انتخابات میں کم ہی حصہ لیا ہے۔

ان الیکشنوں میں ووٹروں کی بڑی تعداد چھتیس سے ساٹھ سال کی عمر رکھنے والے مرد وزن تھے۔ مثال کے طور پہ 1997ء کے الیکشن میں صرف 36.10فیصد نوجوانوں اور جوانوں نے ووٹ ڈالے تھے۔اس الیکشن میں مجوعی ووٹنگ کی شرح بھی بہت کم رہی تھی یعنی صرف 26 فیصد۔

جوش وخروش میں اضافہ

تاہم اس کے بعد نوجوانوں اور جوانوں کی زیادہ تعداد ووٹ دینے کے لیے نکلنے لگی۔مثلاً 2013ء کے الیکشن میں بھی ووٹنگ کی شرح بہت کم یعنی 26 فیصد رہی تھی ، مگر اس میں 53.62فیصد نوجوان وجوان ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

2018ء کے الیکشن میں مجموعی ووٹنگ کی شرح بلند ہو کر 37 فیصد تک پہنچ گئی جو ایک اچھی علامت تھی۔تاہم اس میں 51.50فیصد نوجوان وجوان ووٹروں نے ووٹ ڈالا۔

ایک کروڑ بڑھ گئے

اعداد وشمار کی روسے’’ پانچ کروڑ، اڑسٹھ لاکھ ساٹھ ہزار‘‘ سے زائد ووٹر نوجوانوں اور جوانوں پہ مشتمل ہیں۔ان میں اٹھارہ سے پچیس سال کے ووٹروں کی تعداد ’’دو کروڑ پینتیس لاکھ دس ہزار‘‘ سے زیادہ ہے۔جبکہ چھبیس سے پینتیس سال کے ووٹروں کی تعداد ’’تین کروڑ تیتیس لاکھ چونتیس ہزار‘‘ سے زائد ہے۔2018ء میں نوجوان وجوان ووٹروں کی تعداد چار کروڑ چونسٹھ لاکھ تیس ہزار تھی۔گویا چھ سال میں اس گروہ کی تعداد میں ایک کروڑ بیالیس ہزار ووٹروں سے زیادہ کا اضافہ ہو گیا۔

میڈیا نے آگاہی پھیلا دی

ماہرین کو امید ہے کہ آٹھ فروری کے الیکشن میں اس گروہ کی بڑی تعداد ووٹ دینے نکل سکتی ہے۔اس خیال کی ایک وجہ سوشل میڈیا کا پورے پاکستان میں پھیلاؤ ہے۔آج پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے مل کر تقریباً سبھی پاکستانیوں کو، چاہے وہ خواندہ ہو یا ان پڑھ، قومی اور عالمی حالات سے آشنا کرا دیا ہے۔

ان کو سیاست، معاشرت، طرز حکمرانی، اسلامی اصولوں، اخلاقیات، سائنس وٹکنالوجی غرض تمام شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں آگاہی دی ہے۔ اسی لیے ہر پاکستانی اب ووٹ کی اپنی طاقت سے بھی کافی حد تک آگاہ ہو چکا۔اِس آگاہی سے اُس برادری ازم، لالچ وہوس اور مفادات کے عناصر کو ضعف پہنچا ہے جو پاکستان میں روایتی طور پہ الیکشنوں کے عمل سے وابستہ رہے ہیں۔

خراب طرز ِحکمرانی بڑا مسئلہ

آج ایک عام آدمی بھی جان چکا کہ بہ حیثیت پاکستانی قوم ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ خراب طرز ِحکمرانی یا بیڈ گورنس ہے۔اس مسئلے کی وجہ سے ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے اور طاقتوروبااثر حکمران طبقے تک محدود ہو گئے۔

بیڈ گورنس نے قانون کی حکمرانی نہ ہونے، رشوت ستانی ، اقربا پروری اور مفاداتی سیاست کے باعث جنم لیا۔اسی کی وجہ سے آج پاکستان ’’اسی ہزار کھرب روپے‘‘کا مقروض ہو چکا ۔اور حکومت کو جو آمدن ہو، اس کا بڑا حصہ قرضوںکا سود دینے پہ لگ جاتا ہے۔عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں کے لیے حکمران طبقے کے پاس اب رقم نہیں رہی کیونکہ اس نے خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے اپنے دیس کو مقروض ریاست بنا دیا ہے۔

ووٹروں کا فرض

اس آگاہی کے بعد یہ پاکستانی ووٹروں کا فرض ہے کہ وہ ایسے سیاست دانوں کو ووٹ دیں جو ایمان دار، قابل، باصلاحیت اور تعلیم یافتہ ہوں۔ایسے رہنما ہی حکمران طبقے کے دیگر ارکان(سرکاری افسروں، جرنیلوں ، ججوں، کاروباری وصنعت کاروں) کے ساتھ مل کر پاکستان کو درپیش سنگین معاشی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔

چونکہ نوجوان اور جوان کچھ کر دکھانے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں، لہذا انھیں خصوصاً ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہیے تاکہ وہ اچھی طرز حکمرانی یا گڈ گورنس کرنے والے سیاست دانوں کو منتخب کر کے اپنے ملک وقوم کی تقدیر بدل سکیں۔

حکومت کا حصہ بنیں

پرنٹ ، الیکٹرونک و سوشل میڈیا میں آنے والے جائزوں اور تحقیق سے عیاں ہے کہ خاص طور پہ نوجوان طالب علم لڑکے لڑکیاں آمدہ الیکشن کے سلسلے میں پُرجوش ہیں۔یہی نہیں ، وہ خراب معاشی حالات کے باوجود پُرامید بھی ہیں کہ الیکشن کے بعد صورت حال میں بہتری آئی گی۔یہ نوجوان کہتے ہیں:

’’ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرے۔ جو ووٹ نہیں ڈالتا، اسے حکومت پر تنقید کرنے کا حق بھی حاصل نہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہو گی کہ آپ ایک کمپنی میں کام نہیں کرتے، مگر اسے اپنی تباہی و بربادی کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔لہذا اپنا ووٹ دیجیے، حکومت میں شامل ہوئیے اور اسے درست انداز میں چلانے کے لیے اپنا فرض ادا کیجیے۔‘‘

پولنگ اسٹیشن آئیے

ماہرین آشکارا کرتے ہیں کہ ایک قومی الیکشن میں سب سے زیادہ فوائد یا نقصان نوجوانوں اور جوانوں کے گروہ ہی سے ممنسلک ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں الکیشنوں سے متعلق معروف غیرسرکاری تنظیم ، پلڈاٹ (Pakistan Institute of Legislative Development and Transparency)کے صدر، احمد بلال محبوب کہتے ہیں:’’اس الیکشن میں نوجوانوں وجوانوں کے ووٹ گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔مگر سوال یہی ہے کہ کیا وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے گھروں سے باہر نکل سکیں گے؟یہ ووٹر خصوصاً سوشل میڈیا پر تو زورشور سے اپنے نظریات کا اظہار کرتے ہیں مگر عموماً ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن نہیں آتے۔شاید وہ شرماتے ہیں یا پھر سستی دکھا جاتے ہیں۔‘‘

جوہر قابل کا انخلا

یہ یاد رہے کہ خراب معاشی حالات کی وجہ سے پچھلے دو سال میں دو ڈھائی لاکھ نوجوان اچھے مستقبل کی چاہ میں قانونی یا غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جا چکے۔ جبکہ لاکھوں مزید اسی کوشش میں ہیں۔

یوں ریاست برین ڈرین کا شکار ہو چکی، یعنی ہنرمند وتعلیم یافتہ باہر جا رہے ہیں اور پاکستان قابل وباصلاحیت نئی نسل سے محروم ہوتا جا رہا ہے جو ایک المّیہ ہے۔معاشی مسائل کی وجہ سے نوجوانوں اور جوانوں کی بڑی تعداد اپنے مستقبل سے بھی مایوس ہے ۔

طلبہ یونینوں کی اہمیت

بدقسمتی سے اکثر سیاسی جماعتیں الیکشن کے وقت نئی نسل کو نظرانداز کر دیتی ہیں۔وہ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں جو برادری یا دولت کی بنیاد پہ جیت سکیں۔اس روش کی وجہ سے بھی نوجوان و جوان الکشین کے عمل سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینیں بحال کر دینی چاہیں۔ماضی میں یہ یونینیں نئی نسل کو الیکشن کے عمل و اہمیت سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔انھیں اسلحے اور غنڈہ عناصر سے دور رکھنے کے لیے موثر قانون سازی کی جا سکتی ہے۔

ووٹ معمولی طاقت نہیں

عام آدمی سے لے کر نوجوانوں اور جوانوں کو دراصل سمجھنا چاہیے کہ بظاہر ایک شہری کا ووٹ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔مگر جب شہریوں کی بڑی تعداد ووٹ کا حق استعمال کرے تو یہ عمل معمولی ووٹ کو ایک زبردست طاقت بنا دیتا ہے۔تب وہ مل کر حکومت سازی میں بڑی تبدیلی اور انقلاب لا سکتے ہیں۔اسی طرح ایسی جمہوری حکومت وجود میں آتی ہے جو عوام کے حقوق ادا کرتی اور ان کے مفاد کا خیال رکھتی ہے۔

نوجوان ہی مستقبل کی امید

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت تعلیم یافتہ اور سمجھدار نوجوان وجوان ہی پاکستان کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔یہ بخوبی جانتے ہیں کہ خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے پاکستان قرضوں، مہنگائی ، بیروزگاری، غربت، بیماری اور جہالت جیسے موذی امراض کا شکار ہوا ہے۔لہذا وہ الیکشن میں قابل ودیانت دار رہنماؤں کو ووٹ دے کر ایک عمدہ و گڈ گورنس کرنے والی حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لہذا ووٹنگ کے عمل میں ان کی شمولیت بہت ضروری ہے۔

پاکستان ہی سہارا

نوجوانوں اور جوانوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ان کی اکثریت نے ساری زنگی پاکستان ہی میں گذارنی ہے۔لہذا ایک اچھی حکومت قائم ہونے سے انہی کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ادھیڑ عمر اور بوڑھے پاکستانی تو اپنی بیشتر عمر گذار چکے۔انھیں اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت اچھی آئے گی یا بُری!اس باعث نوجوان اور جوان بڑھ چڑھ کر الیکشن میں حصہ لیں تاکہ گڈ گورنس کرنے والے امیدوار چن کر اپنے مسقتبل کو خوشگوار اور ترقی یافتہ بنا سکیں۔

حکومت کیسی ہو؟

نوجوان اور جوان ووٹروں کے سامنے اہم ترین سوال یہی ہے کہ وہ کس قسم کی اگلی حکومت چاہتے ہیں؟ان کی یہی خواہش ہے کہ نئی حکومت ایسی پالیسیاں بنائے جن سے اول مہنگائی کم ہو، دوم روزگار کے مواقع جنم لیں۔ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ معاصر جماعتوں سے لڑائی جھگڑے نہ کرے اور ملک میں امن وامان کی فضا قائم رکھے۔نوجوان اور جوان سیاسی رہنماؤں اور حکمران طبقے کے دیگر ارکان کی باہمی لڑائیوں سے بہت تنگ آ چکے۔ان کی خواہش ہے کہ حکومت کے سبھی ارکان و عناصر مل جل کر ملک وقوم کی خوشحالی وتعمیر کے لیے کام کریں۔

نئی نسل کے ارکان چاہتے ہیں کہ نئی حکومت پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا کرے، جبر سے کام نہ لے بلکہ افہام وتفہیم سے مسائل حل کرے، روزگار پیدا کرنے کے لیے ڈویژن، ضلع اور تحصیل کی سطح پر اسٹارٹ اپ کی سہولت شروع کرے اور ملک میں جاب مارکیٹ کو وسعت دینے کے سلسلے میں اقدمات کرے۔

لڑائی بھڑائی چھوڑ دو

ایک یونیورسٹی کے طالب علم کا کہنا ہے’’ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی نعروں یہ دعوی تو بہت کرتی ہیں کہ وہ نوجوانوں کی خاطر یہ کریں گی، وہ کریں گی مگر عملی طور پہ ٹھوس اقدامات زیادہ جنم نہیں لیتے۔اسی لیے لیکن نوجوانوں کی بیرونی ممالک کی طرف ہجرت عروج پر ہے۔حکومت اب اپنے اخراجات کے لیے ملکی وغیرملکی مالی اداروں کے قرضوں کی محتاج ہو چکی۔مگر حکمران طبقے کے عناصر کا طرزفکر یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے ہر وقت ایک دوسرے سے دست وگریبان رہتے ہیں۔‘‘

اس مایوس کن صورت حال کے باوجود ابھی تک سب کچھ کھویا نہیں ۔ کئی نوجوان اور جوان یہ سوچ رکھتے ہیں کہ اگر نئی نسل کی بڑی تعداد آٹھ فروری کو پولنگ اسٹیشن پہنچ گئی تو انقلاب آ سکتا ہے۔یہ نوجوان قدم بہ قدم نظام کو بہتر بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں مگر اس سوچ کو عمل میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔

خواتین اور الیکشن

پچھلے سال کی مردم شماری کی رو سے پاکستان میں کل آبادی میں خواتین کی تعداد 49.6فیصد ہے۔گویا وہ وطن عزیز کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہیں۔بدقسمتی سے مگر نوجوان اور جوان لڑکیوں اور خواتین کی بہت کم تعداد ہی عام انتخابات میں ووٹ ڈالتی ہے۔پچھلے الکیشنوں میں یہ شرح صرف بیس فیصد رہی ہے۔تاہم ماہرین کو یقین ہے کہ اس آٹھ فروری کو ان کی بڑی تعداد پولنگ اسٹیشن پہنچ کر تبدیلی لانے کا سبب بن سکتی ہے۔

2018 ء کے الیکشن میں خواتین ووٹروں کی کل تعداد چار کروڑ سڑسٹھ لاکھ تھی۔یہ تعداد اب بڑھ کر پانچ کروڑ چوراسی لاکھ تک پہنچ چکی۔گویا چھ برس میں خواتین ووٹروں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ بڑھ گئی۔یہ ایک خوش آئند بات ہے۔یہ آشکارا کرتی ہے کہ بھارت اور افغانستان کے برعکس پاکستان میں خواتین بڑھ چڑھ کر ملک وقوم کی تعمیر وترقی میں حصہ لے رہی ہیں۔اب وہ اپنا حق ِرائے دہی برت کر اور قابل ودیانت دار رہنما چن کر مزید فعال کردار ادا کر سکتی ہیں۔

اعداد وشمار کے مطابق صوبہ پنجاب میں خواتین سب سے زیادہ متحرک ہیں۔اسی لیے پنجاب ہی میں خواتین ووٹروں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔وہاں 2018 ء میں خواتین ووٹرز کی تعداد 26,992,374 تھی جو 2023 ء میں بڑھ کر 33,590,515 تک پہنچ گئی۔اس کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے۔

پاکستان میں خواتین ووٹروں کو کئی چیلنج درپیش ہیں۔انہی مسائل کی وجہ سے خواتین کم ہی ووٹ ڈالنے جاتی ہیں۔مثال کے طور پر سماجی اصول اور ثقافتی رکاوٹیں اس ضمن میں اپنا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔یہ بندشیں خواتین کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکتی ہیں۔ روایتی صنفی کردار اکثر خواتین کو گھریلو شعبوں تک محدود رکھتے ہیں۔ مزید برآں بعض خطوں میں رائج قدامت پسند سماجی اصول خواتین کو گھر سے نہیں نکلنے دیتے۔

2018 ء کے انتخابات میں خیبر پختون خواہ میں خواتین ووٹروں کا ٹرن آؤٹ تشویش ناک حد تک کم رہا تھا۔ شانگلہ سمیت بعض حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ دس فیصد سے کم ہونے پر دوبارہ الیکشن لڑنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم سب خواتین ووٹروں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کریں تاکہ ان کے خدشات دور ہو سکیں اور وہ جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

خواتین ووٹروں کو ان مسائل کا سامنا ہے:٭ سماجی ثقافتی اصول اکثر خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کردیتے ہیں۔٭تعلیم کی کمی آڑے آتی ہے۔تعلیم اور خواتین ووٹر کے اندراج کا باہمی تعلق واضح ہے۔ جن علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی کم ہے ،وہاں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد بھی کم ہے۔

٭فاٹا جیسے مخصوص خطوں میں نامکمل یا غلط دستاویزات کے عمل خواتین ووٹروں کا ڈیٹا مکمل نہیں ہونے دیتے۔٭سیکورٹی خدشات بھی اہم وجہ ہیں۔تنازعات کے شکار علاقوں میں خواتین کو سیکورٹی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔وہ ان کا حق رائے دہی کے آزادانہ استعمال میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

٭خواتین کی اکثریت سیاسی طور پہ بااختیار نہیں ہوتی۔سیاسی قیادت میں خواتین کی محدود نمائندگی ان کے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

٭مروجہ ثقافتی اصول اکثر عوامی معاملات میں مردوں کی شرکت کو ترجیح دیتے ہیں۔پھر قدامت پسند علاقوں میں مرد دانستہ خواتین کو سیاسی عمل سے دور رکھتے ہیں تاکہ مقامی معاشرے پر ان کی حکمرانی برقرار رہے۔

٭ناکافی سہولیات بھی ووٹنگ کے عمل میں رکاوٹیں ڈالتی ہیں۔جیسے خواتین کے لیے علیحدہ پولنگ اسٹیشن نہیں بنائے جاتے۔ خاص طور پر قدامت پسند علاقوں میں ایسے پولنگ اسٹیشن بن جائیں تو خواتین ووٹروں کی زیادہ تعداد وہاں کا رخ کرے گی۔

٭خاندان کے مردوں پر معاشی انحصار بھی خواتین کی خودمختاری کو محدود کر دیتا ہے۔وہ پھر مرد کی مرضی کے تابع ہو جاتی ہیں۔اگر مرد چاہے تبھی وہ ووٹ ڈال سکتی ہیں ورنہ نہیں۔

ووٹروں کے بنیادی اعدادوشمار
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 128,585,760 ووٹرز موجود ہیں۔ ان میں 69,263,704 (53.87% فیصد) مرد ووٹر اور 59,322,056 (46.13% فیصد) خواتین ووٹر ہیں۔

اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (ICT) میں 1,083,029 ووٹرز ہیں جن میں 568,406 مرد ووٹر (52.48%) اور 524,623 خواتین ووٹر (47.52%) شامل ہیں۔

صوبہ پنجاب میں 73,207,896 ووٹر ہیں۔ ان میں 39,122,082 (53.44%) مرد ووٹر اور 34,085,814 (46.56%) خواتین ووٹر ہیں۔

سندھ میں 26,994,769 ووٹرز ہیں جن میں 14,612,655 مرد ووٹر (54.13%) اور 12,382,114 خواتین ووٹر (45.87%) ہیں۔

خیبرپختونخوا میں 21,98,119 ووٹرز ہیں جن میں 11,944,397 (54.47%) مرد ووٹر جبکہ 9,982,772 (45.53%) خواتین ووٹر ہیں۔

بلوچستان میں 5,371,947 ووٹرز ہیں جن میں 3,016,164 (56.15%) مرد ووٹر اور 2,355,783 (43.85%) خواتین ووٹر شامل ہیں۔

پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک بھر میں 92,353 پولنگ سٹیشن قائم کیے ہیں تاکہ پونے تیرہ کروڑ سے زائد ووٹر بخیروخوبی اپنا ووٹ ڈال سکیں۔ان میں سے 31,666 پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا ہے جب کہ 20,606 انتہائی حساس قرار پائے ہیں۔

ای سی پی کے مطابق صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ 52,412 پولنگ اسٹیشن بنائے جائیں گے۔ خیبرپختونخوا میں 15,737 پولنگ اسٹیشن قائم ہوں گے۔ ان میں سے 4,831 کو نارمل، 6,180 کو حساس اور 4,726 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔

سندھ میں مجموعی طور پر 19,096 پولنگ اسٹیشنوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ان میں سے 4,718 کو امن و امان کے لیے خطرات سے پاک، 6,576 کو حساس اور 7,802 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔

رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور سب سے کم آبادی والا صوبہ بلوچستان میں 5,067 پولنگ اسٹیشن قائم ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، ان میں سے صرف 961 کو نارمل کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے، جب کہ 2,068 کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ 2,038 انتہائی حساس قرار پائے۔

نوجوان ووٹر کہاں زیادہ؟
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا کے 227 ممالک میں 36 واں ملک ہے جہاں سب سے زیادہ کم عمر آبادی بستی ہے۔ یہ ایشیا میں چھٹے جبکہ جنوبی ایشیا میں اس لحاظ سے دوسرے نمبر پر فائز ہے۔صرف افغانستان میں نوجوانوں کی شرح پاکستان سے زیادہ ہے۔

وطن عزیز کے وہ کون سے اضلاع ہیں جن میں نوجوان ووٹرز کا تناسب زیادہ ہے؟ اعداد وشمار کی رو سے پاکستان میں سب سے زیادہ نوجوان وجوان ووٹر ضلع باجوڑ میں رہتے ہیں۔وہاں کل ووٹروں کی تعداد 664,711 لاکھ ہے۔ ان میں سے 54.45 فیصد یعنی 361,910 لاکھ نوجوان یا جوان ہیں۔ اس کے بعد خیبر پختون خواہ ہی کے ایک اور ضلع، جنوبی وزیرستان کا نمبر ہے۔ وہاں 430,488 لاکھ ووٹررجسٹر ہیں۔ ان میں سے 54.30 فیصد یعنی 233,763 ووٹر نوجوان ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نوجوان و جوان ووٹروں کی تعداد زیادہ ہونے کے لحاظ سے اگلے اضلاع بھی خیبر پختون خواہ میں واقع ہیں۔ وہ یہ ہیں:ضلع خیبر، ووٹروں کی کل تعداد 638,743 لاکھ، نوجوان وجوان ووٹر 53.05 فیصد۔ ضلع کوہستان (بالائی)، ووٹروں کی کل تعداد 75,660 ہزار، نوجوان وجوان ووٹر 52.78 فیصد۔ ضلع اپر دیر، ووٹروں کی کل تعداد 590,433 لاکھ، نوجوان وجوان ووٹر 52.08فیصد۔