آر ٹی ایس نہ آر ایم ایس: اس بار الیکشن کمیشن نتائج کا اعلان کیسے ہو گا اور نیا نظام کتنا قابل بھروسہ ہے؟
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ انتخابی نتائج الیکشن مینجمنٹ سسٹم (ای ایم سی) کے ذریعے مرتب کیے جائیں گے۔
الیکشن کمیشن کے حکام کا اصرار ہے کہ یہ نظام گذشتہ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) سے یکسر مختلف ہے۔ البتہ اسے الیکشن کمیشن کے اپنے رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم (آر ایم ایس) کی نئی شکل ضرور کہا جا سکتا ہے۔
الیکشن حکام کے مطابق یہ سافٹ ویئر ایک نجی کمپنی کی جانب بنایا گیا ہے
واضح رہے کہ اس بار کل 24 کروڑ سے زائد ووٹ کی پرچیاں چھاپی گئی ہیں۔ اب ووٹ تو سو فیصد نہیں کاسٹ ہوں گے مگر الیکشن کمیشن ان تمام سو فیصد پرچیوں کا حساب رکھنے کا پابند ہے۔
الیکشن کمیشن نے نومبر 2022 سے نتائج مرتب کرنے سے متعلق نئے نظام ’ای ایم ایس‘ پر کام شروع کیا تھا۔
اس مقصد کے لیے ایک ’بِڈنگ‘ کے ذریعے ایک نجی کمپنی ’سپائر‘ کو چنا گیا، جس نے نتائج مرتب کرنے کے لیے ایک میکنزم اور سافٹ ویئر تیار کر کے الیکشن کمیشن کے حوالے کیا۔
الیکشن کمیشن نے اس سافٹ ویئر پر الیکشن سے محض چند دن قبل 27 جنوری کو ایک تجربہ کیا اور اس عمل میں 859 ریٹرنگ افسران بھی شریک ہوئے۔
یوں یہ ریٹرنگ افسران کے لیے تربیتی ورکشاپ بھی ثابت ہوئی کہ انھوں نے آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کیسے مرتب کرنے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے خود اپنی پریس ریلیز میں تسلیم کیا ہے کہ اس تجربے کے دوران کچھ جگہوں پر انٹرنیٹ کنکشن کے مسائل کی وجہ سے نتائج بھیجنے میں ناکامی بھی ہوئی ہے۔
حکام کے مطابق اس نئے نظام کے تحت ریٹرننگ افسران کو فائبر آپٹیکس اور بصورت دیگر وائی فائی ڈیوائسز مہیا کی جائیں گی۔ ان کے مطابق حکومت کو اس حوالے سے ضروری اقدامات کے لیے بھی لکھا جا چکا ہے جن میں بجلی اور انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی بھی شامل ہے۔
حکام کے مطابق اس بار نئے نظام کے تحت الیکشن نتائج کا سلسلہ نامزدگی فارم سے ہی شروع ہو گیا ہے۔ اب یہ تمام تفصیلات نئے نظام میں درج کی جا رہی ہیں اور آخر میں انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد فارم 45 پر پولنگ سٹیشن کا نتیجہ مرتب کیا جانا ہے اور فارم 47 پر پورے حلقے کا نتیجہ لکھا جائے گا۔
ملک بھر سے پریزائڈنگ افسران (پی اوز) پولنگ سٹیشن کا نتیجہ ریٹرنگ افسران (آر اوز) کو بھیجیں گے۔
ان کے موبائل پر ای ایم ایس کی ایپ انسٹال کی جا چکی ہے، جس کے ذریعے وہ فارم 45 کی تصویر آر اوز کو بھیجیں گے۔ اگر کسی وجہ سے یہ تصویر ’سینڈ‘ نہ بھی ہو سکے تو پھر ’جیو ٹیگنگ‘ کر کے اس تصویر کے بنانے اور شیئر کرنے کا وقت معلوم کیا جا سکے گا۔ جیو ٹیگنگ کے لیے پی اوز کے موبائل کا فرانزک کیا جائے گا۔
ہر پولنگ سٹیشن پر سینیئر پی او اور آر او کے پاس یہ موبائل دستیاب ہوں گے جن میں الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ ایپ ڈاؤن لوڈ کی گئی ہے۔
ایک موبائل گم ہونے یا خراب کی صورت میں دوسرا موبائل استعمال کیا جائے گا۔ حکام کے مطابق اگر کسی وجہ سے یہ موبائل سرے سے کام ہی نہ کریں تو بھی انتخابی نتائج کے عمل میں تاخیر ضرور آ سکتی ہے مگر اس سے نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔
پی اوز کو کہا گیا ہے کہ وہ فارم 45 پُر کرنے سے قبل ایک سادہ کاغذ پر نتائج مرتب کریں اور پھر انھیں حتمی فارم 45 پر درج کریں اور اس کی تصویر بنا کر آر اوز کو بھیج دیں۔
نتیجے کی تصویر شیئر کرنے کے علاوہ پی او کو خود نتیجہ لے کر آراو کے پاس جانا ہوگا۔ ریٹرنگ افسران ایک میڈیا وال یا بڑی سکرین کے ذریعے ان نتائج کا اعلان کریں گے۔ اس بار الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ اس سارے عمل میں براہ راست شریک نہیں ہو گا۔
ہر آر او کو صوبائی اسمبلی کے حلقے کا نتیجہ تیار کرنے کے لیے تین جبکہ قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے چار ڈیٹا آپریٹرز میسر ہوں گے، جن کے پاس لیپ ٹاپ ہوں گے اور وہ مسلسل ان نتائج کو مرتب کر رہے ہوں گے۔
ملک بھر سے بہترین صلاحیت کے تقریباً 3600 ڈیٹا آپریٹرز ان نتائج کو مرتب کرنے کے عمل میں شامل ہوں گے۔
ہر آر او کے پاس نادرا کا ایک اہلکار بھی ہو گا، جسے ’ٹربل شوٹر‘ کہا جاتا ہے۔ وہ اہلکار کسی بھی تکنیکی خرابی کی صورت میں ڈیٹا آپریٹرز کی مدد کرے گا۔
اگر سافٹ ویئر میں کوئی پیچیدگی یا مسئلہ ہوا تو معاہدے کے تحت اس کی ذمہ داری اسے تیار کرنے والی کمپنی کے کندھوں پر ہو گی۔