حکومت کون بنائے گا؟

الیکشن کے نتائج آنے کے بعد ہر شخص کے ذہن میں سوال ہے کہ ملک کا نیا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا وفاق اور صو بوں میں حکومتیں کس کی بنیں گی، حکومت سازی کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز متحرک ہوگئے ہیں۔

آزاد امیدواروں کا کردار کلیدی اہمیت اختیار کرگیا ہے جن کی تعداد سب سے زیادہ ہے تاثر ہے کہ تمام آ زاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی لیکن حقیقت یہ نہیں، اگرچہ اکثریت کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے لیکن بعض امیدواروں نے مختلف جماعتوں سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔

قومی اسمبلی کے دس سے زیادہ ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں ہے جہاں تک وفاق میں حکومت سازی کا تعلق ہے تو اس میں سب سے بڑا گروپ آزاد ممبران کا ہے ان میں سے بیشتر پی ٹی آئی کیساتھ کمٹڈ ہیں لیکن چونکہ انہوں نے پارٹی کے نشان پر الیکشن نہیں لڑا اسلئے انکی حیثیت آزاد ممبر کی ہے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں بڑی جماعتوں کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ آزاد ممبران کو اپنی جماعت میں شامل کرلیا جائے تاکہ انہیں مخصوص نشستوں میں زیادہ کو ٹہ مل سکے، پی ٹی آئی کی قیادت کا اب بڑ اچیلنج یہ ہوگا کہ اپنے آزاد ارکان کو دوسری جماعتوں میں جانے سے روکے کیونکہ وہ پلڑا بھاری ہوجائیگا جس جانب آزاد ارکان جائینگے۔

PTI کے پاس سپر یم کورٹ سے رجوع ، مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل جوائن کرنے کے آپشنز ہیں قومی اسمبلی میں خواتین کی 60 اور اقلیتوں کی دس نشستیں ہیں یہ 70 نشستیں سیاسی جماعتوں کی عددی حیثیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گی اسوقت سب سے زیادہ نشستیں مسلم لیگ ن کے پاس ہیں دوسری بڑی پارٹی پیپلز پارٹی ہے ایم کیو ایم تیسرے، جے یو آئی چوتھے اور مسلم لیگ قائد اعظم پانچویں نمبر پر ہے۔

رولز کے تحت اگر آزاد امیدواروں نے نو ٹیفکیشن جاری ہونے کے تین دن میں کسی پارٹی کو جوائن نہ کیا تو مخصوص نشستیں ان جماعتوں میں تقسیم کر دی جائیں گی تاہم آ زاد ارکان پر قدغن نہیں ہے وہ لا زمی طور ہی کسی پارٹی کو جوائن کریں سوائے اسکے وہ مخصوص نشستوں سے محروم ہو جائینگے۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ممبران قومی اسمبلی کے پاس کئی آپشن ہیں پہلا یہ کہ وہ مجلس وحدت مسلمین جوائن کرلیں جن کے رہنما راجہ ناصر عباس نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی تھی بعد ازاں انہوں نے بیرسٹر گوہر خان سے بھی ملاقات ہوئی جس میں دونوں جماعتوں نے الیکشن میں تعاون کا فیصلہ کیا تھا۔

ایم ڈبلیو ایم کو جوائن کرنے پر پارٹی قیادت میں سے بعض کے تحفظات ہیں کیونکہ مجلس وحدت مسلمین ایک مذہبی جماعت ہے اسکا اپنا منشور ہے جو مذہبی نوعیت کا ہے جبکہ پی ٹی آئی کا اپنا منشور ہے جو مختلف ہے مجلس وحدت مسلمین کے منشور کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ اللّٰہ کا دیا ہوا قانون سب سے اعلیٰ ہے، انسانیت کی سر بلندی و سر فرازی کیلئے اس پر عمل ہونا چاہئے۔

دوسرا آپشن یہ کہ سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا جائے جسکے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا ہیں اس بارے میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے کسی سیاسی جماعت سے الحاق کا آپشن موجود ہے ہم اپنی مخصوص نشستوں کو ضائع نہیں ہونے دینگے، قانونی ٹیم اسکا جائزہ لے رہی ہے۔

ایک اور رہنما نے بتایا ہم سپر یم کورٹ میں ریویو در خواست کی جلد سماعت کیلئے در خواست دینگے تاکہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال ہوجائے ہماری پہلی آپشن یہ ہے کہ سپر یم کورٹ سے ریلیف مل جائے کہ ہم پی ٹی آئی کو جوائن کرسکیں۔

مجلس وحدت مسلمین کے ایک رہنما نے بتایا کہ ابھی تک حکومت سازی یا ہماری جماعت کو جوائن کرنے کیلئے باضابطہ طور پر رجوع نہیں کیا گیا لیکن ہماری جانب سے پی ٹی آئی کو تعاون کی غیر مشروط پیشکش ہے کیونکہ وہ اس وقت مشکل میں ہے در اصل پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ممبران اگر ایم ڈبلیو ایم کو جوائن کرتے ہیں تو انکے ڈسپلن کے پابند ہوجائینگے اور اپنی آزادی و شناخت کھو دیں گے۔