لوگ مختلف طریقوں سے ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں، یہ مغربی تہوار، جو دوستوں کے درمیان محبت کا اظہار کرنے اور خوشی پھیلانے کے بارے میں ہے، آج کل نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بڑی تعداد میں مالز، ریسٹورنٹس، پارکوں اور قدیم عمارتوں کے احاطوں میں بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ محبت کا ایک بڑا تہوار بن چکا تھا۔
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ دن صرف جوڑوں کے لیے نہیں ہے، بچے بھی اپنے دوستوں اور یہاں تک کہ اسکول میں اساتذہ کے ساتھ ویلنٹائن ڈے کارڈز دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
بچے اپنے والدین کو بھی ویلنٹائن کارڈ دے سکتے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دن صرف جوڑوں کے رومانوی تعلقات کے حوالے سے نہیں بلکہ مختلف رشتوں کی اہمیت کے بارے میں بھی ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی سیدہ ماہم زہرا کے والد چونکہ کام میں مصروف ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنی والدہ کو ویلنٹائن ڈے منانے کے لیے باہر لے جاتی ہے، ماہم کہتی ہیں کہ ’ہم باہر جاتے ہیں، ایک ساتھ وقت گزارتے ہیں، اور کپ کیک کھاتے ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ ویلنٹائن ڈے پر یہ ان کے لیے ایک روایت بن گئی ہے جس کا وہ ہر سال انتظار کرتی ہیں۔
زین حیدر نقوی (جو کچھ سال پہلے امریکا سے واپس آئے تھے) نے بتایا کہ ان کے لیے ویلنٹائن ڈے اب بھی زیادہ تر کلپز یعنی جوڑوں کے لیے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 14 فروری کو ان کے والدہ ہر سال سرخ روشنیوں سے گھر کو روشن کرتی ہے، زین نے یہ بھی بتایا کہ وہ خود 14 سال کی عمر تک اپنے اسکول کے اساتذہ کے لیے کارڈز بناتے تھے اور اس موقع پر اپنے استاد کے ساتھ رقص بھی کرتے تھے۔
البتہ مناوی کمار کا کہنا ہے کہ ہر ویلنٹائن ڈے پر ان کے والد سونے سے بنی کوئی بھی چیز والدہ کو تحفے میں دیتے، ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک تحفہ بھی ہے اور سرمایہ کاری بھی، کوئی عورت ایسی نہیں جسے سونا پسند نہ ہو، میری والدہ تحفے تحائف دیکھ کر ہمیشہ خوش رہتی ہیں، وہ ویلنٹائن ڈے پر پوری فیملی کے لیے بریانی بناتی ہے‘۔
اس سال پھول فروشوں، کھلونوں کی دکانوں، غبارے بیچنے والوں اور کتابوں کی دکانوں پر کم گاہک دکھائی دیے، ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ڈی ایچ اے کے گزری علاقے میں پھولوں کی دکانوں پر سرخ گلاب کے گلدستے دستیاب تھے۔ تاہم شاید ہی کوئی گاہک اپنے پیاروں کے لیے ایک گلاب بھی خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہو۔ اس کے باوجود دکاندار پرامید تھےویلنٹائن ڈے کے دن پھولوں کی فروخت میں اضافہ ہوگا، ایک پھول فروش ابو بکر کا کہنا تھا کہ ’ عام طور پر گاہک ویلنٹائن ڈے پر ہی پھول خریدتے ہیں’۔
سرخ گلابوں کے ایک گلدستے کی قیمت صرف 1200 روپے ہے، لیکن انگلش گلاب (اگرچہ مقامی طور پر بھی اگائے جاتے ہیں) کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، پھول فروش کا کہنا تھا کہ ’ایک مقامی طور پر اگائے جانے والے انگلش گلاب کے پھول کی قیمت 200 روپے ہے، لیکن ہم ملائیشیا سے درآمد شدہ گلاب بھی فروخت کرتے ہیں، جو اس سے بھی زیادہ مہنگے ہیں،ان کی قیمت تقریباً 700 سے 800 روپے ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ انگلش گلاب اور ملائیشیا سے درآمد شدہ گلاب زیادہ دیر تک چلتے ہیں اور ایک ہفتہ تک تازہ رہتے ہیں، تاہم دیسی گلاب سب سے زیادہ ہیں جو زیادہ خوشبودار اور جلدی سوکھ جاتی ہیں۔’
کچھ خواتین پھلوں کی دکانوں اور اسٹرابیری فروخت کرنے والی فروٹ گاڑیوں پر ویلنٹائن ڈے کی شاپنگ بھی کر رہی تھیں، ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ’ویلنٹائن ڈے پر اسٹرابیری کا موسم ہوتا ہے، میں ویلنٹائن ڈے کے لیے میٹھے پکوان کو سجانے کے لیے بہت سی اسٹرابیری خریدتی ہوں کیونکہ میرے شوہر کو پسند ہے، ہم اس دن پھولوں، غباروں، یا ٹیڈی بیئرز نہیں خریدتے، اس کے بجائے، ہم کیک اور میٹھے پکوان بناتے ہیں۔