پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 9 کا آغاز ہونے کو ہے۔ پاکستان کرکٹ کے سب سے بڑے ایونٹ اور مقبولیت کے اعتبار سے دنیا کی دوسری فرنچائز لیگ پی ایس ایل کا نواں ایڈیشن اس لحاظ سے مختلف ہوگا کہ اس کے کچھ اختتامی میچز رمضان میں کھیلے جائیں گے۔ رمضان المبارک میں افطار کے بعد کرکٹ کی سرگرمیاں تو روایتی انداز میں ہوتی ہیں لیکن اس سال پی ایس ایل کی رونقیں بھی ہوں گی۔ شاید اس سال ہر میچ میں اسٹیڈیم مکمل بھرے ہوئے ہوں۔
پی ایس ایل کے لیے تمام 6 ٹیموں نے اپنی دانست میں بھرپور تیاری کی ہے۔ لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ کسی بھی فرنچائز نے آخری دن تک سنجیدگی سے اس پر کام نہیں کیا۔ کھلاڑیوں کی ڈرافٹنگ تو گزشتہ دسمبر میں ہوگئی تھی لیکن اسکواڈ کی حتمی شکل آخری لمحات تک جاری ہے۔ تو دیکھتے ہیں کہ کون سی ٹیم کس قدر مضبوط ہے کہ پی ایس ایل کا نواں ٹائٹل جیت سکے۔
لاہور قلندرز
پی ایس ایل سیزن 8 کی فاتح ٹیم لاہور قلندرز ہے جوگزشتہ دو ٹائٹل جیت چکی ہے اور تیسرے کے لیے سرگرداں ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کی قیادت میں ٹیم نے آخری نمبر سے پہلے تک کا سفر کیا ہے۔ ٹیم کم وبیش وہی جو گزشتہ سال کھیلی تھی صرف فان داڈاسن کا اضافہ ہوا ہے۔
قلندرز کی بیٹنگ بہت متوازن ہے، فخر زمان، مرزا طاہر بیگ، فان داڈاسن عبداللہ شفیق، سکندر رضا اور ڈیوڈ ویسا بیٹنگ کے اہم ستون ہوں گے جبکہ شاہین شاہ آفریدی زمان خان، حارث رؤف فاسٹ باؤلنگ کا شعبہ سنبھالیں گے۔ قلندرز کو فتح گر اسپنر راشد خان کی خدمات حاصل نہیں ہیں اس لیے یہ شعبہ کمزور نظر آتا ہے۔ ممکن ہے یہی ان کی کمزوری بن جائے۔ کیونکہ اسپنرز بعض اوقات سلو پچز پر بہت خطرناک بن جاتے ہیں ایمرجنگ کیٹیگری میں فریدون احمد اور جہانداد خان ہوں گے۔
ملتان سلطانز
دو سال مسلسل فائنل ہارنے کے بعد ملتان سلطانز اس سیزن میں جیت کے لیے پر عزم ہے۔ ملتان کی ٹیم نے محمد رضوان کی قیادت میں بہت بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ رضوان قومی ٹیم کا مستقل حصہ رہنے کے باوجود تنقید کی زد میں رہتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹنگ کی خاطر بسا اوقات ٹیم کا مجموعی اسکور کم کردیتے ہیں۔ بیٹنگ میں ملتان کافی مضبوط ہے عثمان خان گزشتہ سیزن کی دریافت ہیں، 43 گیندوں پر سنچری بناکر وہ پی ایس ایل میں تیز ترین سنچری میکر ہیں۔ مڈل آرڈر میں افتخار احمد کے آنے سے ٹیم کی بیٹنگ مزید مضبوط ہوگی۔
ڈیوڈ ملان خوشدل شاہ طیب طاہر نمایاں بلے باز جبکہ باؤلنگ میں ملتان کو احسان اللہ کے نہ ہونے سے دھچکا لگا ہے وہ ابھی مکمل فٹ نہیں ہوسکے ہیں۔ ڈیوڈ ولی، عباس آفریدی اور شاہنواز دہانی فاسٹ باؤلرز ہوں گے جبکہ اسپنرز میں قومی ٹیم کے اسامہ میر اور فیصل اکرم ہوں گے۔ خوشدل شاہ اور افتخار بھی اسپن باؤلنگ کریں گے۔ بظاہر ٹیم کافی متوازن ہے۔
ایمرجنگ کیٹیگری میں فیصل اکرم سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔ ملتان سلطانز کی اس سیزن کی سب سے بڑی خبر فاسٹ باؤلنگ کوچ خاتون کیتھرین ڈالٹن ہیں۔ انگلینڈ سے تعلق رکھنے والی کیتھرین لیول تھری کوچ ہیں اور اچھی شہرت رکھتی ہیں۔
اسلام آباد یونائیٹڈ
شاداب خان کی کپتانی میں گزشتہ سیزن میں اسلام آباد نے ابتدائی میچوں میں بہت عمدہ کارکردگی دکھائی تھی اور اکثر تجزیہ نگار اسے فائنل میں دیکھ رہے تھے لیکن اپنے آخری تین میچ ہار کر وہ بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ اسلام آباد کی ٹیم کم وبیش وہی ہے البتہ جورڈن کوکس اور عماد وسیم کی شمولیت سے ٹیم کافی مضبوط ہوگئی ہے۔
بیٹنگ میں کولن منرو، جورڈن کوکس، عماد وسیم، ایلکس ہیلز، فہیم اشرف، اعظم خان اور کپتان شاداب خان نمایاں ہوں گے لیکن سب سے دلچسپ بات تین بھائیوں کی شمولیت ہے۔ نسیم شاہ، حنین شاہ اور عبید شاہ اسلام آباد کے فاسٹ باؤلرز ہوں گے۔ ان کے ساتھ ٹائمل ملز اور رومان رئیس بھی ہوں گے جبکہ اسپنرز شاداب خان اور قاسم اکرم ہوں گے۔ ایمرجنگ کیٹیگری میں حنین شاہ اور عبید شاہ ہیں، دونوں اس سیزن کی دریافت بن سکتے ہیں۔ اسلام آباد کی ٹیم متوازن ہے لیکن شاداب کی کپتانی پر بہت سے سوالات کیے جارہے ہیں؟
پشاور زلمی
بابر اعظم کی کپتانی میں دوسرا سیزن پشاور کے لیے کتنا بہتر ثابت ہوتا ہے یہ ابھی دیکھنا ہے لیکن بیٹنگ میں زیادہ نگاہیں صائم ایوب پر ہوں گی جو گزشتہ سیزن میں بہت کامیاب رہے تھے۔ محمد حارث کی بیٹنگ بھی قابل دید ہوگی۔ مڈل آرڈر میں آصف علی، ٹوم کیڈمور اور رومن پاول ہوں گے جبکہ عامر جمال آل راؤنڈر ہوں گے۔ پشاور کی سب سے اہم ڈرافٹنگ شامیر جوزف ہیں جو راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچ گئے ہیں۔ ان کی باؤلنگ بہت اہم ہوگی ان کے ساتھ خرم شہزاد ارشد اقبال سلمان ارشاد اور عارف یعقوب ہوں گے۔
پشاور کی ٹیم بظاہر کمزور نظر آتی ہے اور زیادہ انحصار بابر اعظم پر ہوگا۔ ایمرجنگ کیٹیگری میں پشاور نے حسیب اللہ خان اور محمد ذیشان کو چنا ہے جو بہترین فیصلہ ہے، ذیشان اس سیزن کی دریافت بن سکتے ہیں۔
کراچی کنگز
کراچی کنگز نے اس سیزن میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں۔ کپتانی کا بوجھ نئے آنے والے شان مسعود کے کاندھوں پر ہے۔ شان مسعود اس وقت سب سے خوش قسمت کھلاڑی ہیں۔ وہ ہر جگہ کپتانی کررہے ہیں حالانکہ ہر جگہ ٹیم ہاررہی ہے، لیکن مینجمنٹ کو پروا نہیں۔
کراچی نے اپنی کوچنگ میں بھی تبدیلی کی ہے اور ویسٹ انڈیز کے فل سیمنز نئے کوچ مقرر ہوئے ہیں۔ کراچی کنگز کی بیٹنگ کا بوجھ زیادہ تر شان مسعود پر ہوگا، جیمس ونس دوسرے اوپنر ہوں گے۔ ٹم سائیفرٹ بھی کچھ عرصہ کے لیے دستیاب ہوں گے۔ ویٹرین کھلاڑی شعیب ملک مڈل آرڈر میں اہم کھلاڑی ہیں لیکن سب سے اہم کیرن پولارڈ ہیں جو کسی بھی وقت کھیل کا رخ بدل سکتے ہیں۔ محمد نواز اور عرفات منہاس بھی بوقت ضرورت بیٹنگ کرسکتے ہیں۔ باؤلنگ میں میر حمزہ، انور علی اور عامر خان فاسٹ باؤلرز ہوں گے جبکہ تبریز شمسی محمد نواز اور عرفات منہاس اسپنرز ہوں گے۔
کراچی کنگز بظاہر کمزور ٹیم نظر آرہی ہے۔ کھلاڑیوں کی ڈرافٹنگ میں وسیم اکرم نے ایک بار پھر غلطیاں کی ہیں لیکن ٹی20 کرکٹ ایک مختصر دورانیے کا کھیل ہے اس لیے اگر دو کھلاڑی بھی اچھی کارکردگی دکھادیتے ہیں تو میچ کا رخ اپنی طرف ہوجاتا ہے۔ ایمرجنگ کیٹیگری میں سراج الدین، سعد بیگ اور عرفان خان ہوں گے۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز
کپتانی کے مسئلے کو آخری وقت میں متنازع بنانے کے بعد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی پی ایس ایل پر توجہ کم نظر آتی ہے۔ سرفراز احمد کو اگر سبکدوش کرنا تھا تو ڈرافٹنگ کے وقت اعلان کردینا چاہیے تھا۔ اب حالت مجبوری میں روئلی روسو کو کپتان بنانے سے ٹیم کا کمبینیشن بگڑ سکتا ہے۔ روسو نے آج تک کسی بھی سطح پر کپتانی نہیں کی ہے۔
نئے کوچ شان واٹسن کے مشورے پر کپتان کا تبدیل ہونا خود ایک سوال ہے۔ واٹسن خود بھی پہلی دفعہ کوچنگ کررہے ہیں، کوئٹہ کی مینجمنٹ افراتفری کا شکار ہے۔ ویووین رچرڈز کو کروڑوں روپے صرف تالیاں بجانے کے لیے دیے جارہے ہیں، نائب کپتان سعود شکیل کو مقرر کیا گیا ہے جن کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔
کوئٹہ کی بیٹنگ میں صرف روئلی روسو اور جیسن رائے ہی ہیں جو کچھ کرسکتے ہیں۔ شرفن ردر فورڈ مڈل آرڈر میں جارحانہ بلے باز ہیں لیکن ان میں تسلسل نہیں ہے۔ عمیر بن یوسف، سرفراز احمد اور وائندو ہسارنگا مڈل آرڈر کے اہم بلے باز ہوں گے۔ باؤلنگ میں اچھا اضافہ محمد عامر ہیں جبکہ وسیم جونئیر اور اگر فٹ ہوئے تو محمد حسنین فاسٹ باؤلر ہوں گے، اسپن باؤلنگ کی ذمہ داری ابرار احمد اور ہسارنگا پر ہوگی۔ ایمرجنگ کیٹیگری میں خواجہ نافع ہوں گے۔
پی ایس ایل 9 کے ترانے کا عنوان اس سال ’کُھل کر کھیل پیارے کب تک تو ڈرے گا‘ ہے۔ یہ ترانہ اگرچہ پی ایس ایل سے متعلق ہے لیکن تبصرہ نگار اسے ایک سیاسی پارٹی کی مہم سے جوڑ رہے ہیں۔ ترانہ کچھ بھی ہو لیکن کرکٹ کے کھیل میں وہی چمکتے ہیں جو بے خوف اور پرخطر کرکٹ کھیلتے ہیں۔ نتائج سے بے پروا جب کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہو تو کھیل میں جیت یقینی ہوجاتی ہے۔
17 فروری سے شروع ہونے والے پی ایس ایل سیزن میں کون اس جنگ کا سورما بنے گا اور 18 مارچ کو کراچی کے میدان میں اپنے مخالف کو مات دیکر چمکتی ہوئی روپہلی ٹرافی اٹھائے گا ابھی اس سوال کا جواب ممکن نہیں لیکن ہر دن ایک نیا مقابلہ دیکھنے والوں کے دل موہ لے گا۔ تو تیار ہوجائیے کرکٹ کے ایک ایسے جشن کے لیے جس میں تماشائیوں کا شور، میوزک کی گھن گرج اور بلے بازوں کے فلک شگاف چوکے چھکے آپ کی دید کا انتظار کررہے ہیں۔