سازشوں کے جال میں ہمارا ملک ایسا پھنسا کہ آج تک صرف زندہ رہنے کے لیے پھڑپھڑا رہا ہے۔ ہندوستان کی ابتدائی ٹھوس پالیسیاں اسے ترقی کی اس شاہراہ پر لے گئیں ‘ جہاں سے وہ دنیا کی مضبوط ترین معیشت بن گئی۔ 2024ء میں ہندوستان کی معیشت دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اس کے اوپر‘ امریکا‘ چین‘ جرمنی اور جاپان ہیں۔
ہمسایہ ملک کی جی ڈی پی اب چار ٹریلین ڈالر پر محیط ہے۔ اس کی ترقی کرنے کی شرح6.3فیصد ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سروسز‘ مینوفیکچرنگ اور زراعت میں وہ اپنا لوہا پوری دنیا میں منوا چکے ہیں۔2027ء تک انڈیا ‘ اپنی تیز رفتار معاشی ترقی کی بدولت‘ جرمنی اور جاپان کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ ورلڈ بینک کے مطابق ‘ انڈیا کی جی ڈی پی پانچ ٹریلین ڈالر سے بھی آگے بڑھ جائے گی۔ اب میں اپنے ملک کی طرف آتا ہوں۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے ڈیڑھ سال میں ہماری شرح نمو منفی میں چلی گئی تھی۔
ہماری جی ڈی پی ‘ حجم کے لحاظ سے 46ویں نمبر پر ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ہماری معیشت کا پورا وجود صرف 340بلین ڈالر ہے۔ امکان ہے کہ ہم آنے والے وقت میں دو فیصد کے حساب سے اقتصادی ترقی کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ 2023ء میں ہمارے ملک میں مہنگائی کی شرح چالیس فیصد کو چھو رہی تھی۔ سری لنکا جو کہ دیوالیہ ہو چکا تھا‘ اس بدقسمت ملک میں مہنگائی ہم سے کم تھی۔ یہ 25 فیصد کے قریب تھی۔
انڈیا میں مہنگائی کی شرح سات فیصد اور بنگلہ دیش میںنو فیصد رہی۔ ہمارے دیوالیہ نہ ہونے کی واحد وجہ ورلڈ بینک کی جانب سے ایک بلین ڈالر کی ہنگامی امداد تھی۔ اور آج پھر ہم دوبارہ‘ اس نچلی سطح پر آن کھڑے ہوئے ہیں۔ جو آج سے دس بارہ مہینے پہلے تھی۔ ایک اور گزارش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے‘ ہندوستان نے اپنا Republic day منایا تھا۔یہ 26جنوری کی بات ہے۔ اس تقریب کا مہمان خصوصی فرانس کا صدر میکرون تھا۔ اس کے بالکل برعکس‘ طویل عرصے سے ہمارے ملک میں کسی ترقی یافتہ ملک کا صدر یا وزیراعظم نہیں آیا۔
یہ سب کچھ عرض کرنے کی اس وقت ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کی ایک منطقی وجہ ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری پسماندگی کا سفر رکنے میں ہی نہیں آ رہا۔ اور وہ ملک جو ہمارے ساتھ معرض وجود میں آیا تھا‘ وہ معاشی دیو بن چکا ہے۔ کیا یہ موقع نہیں کہ ہم صرف اور صرف اپنے ملک کی فلاح و بہبود کا سوچیں۔ صرف اپنی معاشی ترقی پر دھیان دیں اور افسانوں اور داستانوں سے نکل کر دنیا کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کریں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
کیونکہ گزشتہ سات دہائیوں سے ہمیں تاریخی لوریوں کا غلام بنا دیا گیا ہے۔ اور ہمیں ذہنی طور پر صرف اور صرف ماضی میں سانس لینے کا چلن سکھایا گیا ہے۔ یہ اس قدر بڑی بدقسمتی ہے جس کااحساس ابھی تک چند فیصد لوگوں کو ہی ہے۔ ہمیں مذہبی قلعہ اور اسلامی دنیا کا قائد ثابت کرنے کی مقامی کوششیں کی گئی ہیں۔ اور یہ جعل سازی مکمل طور پر کامیاب ہے۔
دلیل پر حد درجہ تازہ مثال دینا چاہتا ہوں۔ اسرائیل اور غزہ کی جنگ میں ہمارے چند مذہبی اکابرین نے مشورہ دیا کہ جناب ہمیں فلسطینیوں کے لیے عسکری طاقت مہیا کی جانی چاہیے۔ اس کے لیے بیت المقدس میں ہونے والی دعاؤں کا ذکر خیر بھی شامل تھا۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل فلسطین میں حد درجہ بھیانک جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے‘ کم ہے۔ مگر جناب‘ غزہ کے چاروں اطراف مصر‘ اردن اور دیگر اسلامی ممالک موجود ہیں۔
مجھے ایک ملک بتائیے ‘ جس میں مذہبی طبقے کی طرف سے یہ خواہش آئی ہو کہ جناب‘ اپنی فوج کو غزہ کو بچانے کے لیے اسرائیل کے ساتھ جنگ میںشامل کیا جائے۔ ترکی کے صدر اور دیگر دنیا کے قائدین کی طرف سے مذمتی بیانات کے علاوہ کسی قسم کا کوئی عملی رد عمل دیکھنے کو نہیں ملا۔ ترکی کے اسرائیل سے حد درجہ بہترین سفارتی تعلقات ہیں۔ وہاں تو اردگان نے بھی ضروری نہیں سمجھا کہ حماس کی دوحہ میں موجود قیادت سے ملاقات کرے۔ اور دنیا کو تاثر دے کہ وہ اس بھیانک جنگ کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
حقیقت میں ہر ملک نے اپنے قومی مفادات کے تحت صرف اور صرف بیانات کی حد تک اپنی پوزیشن کو محدود رکھا ۔ مغربی دنیا میں بڑے بڑے جلوس نکلے جن کا مقصد اسرائیل کے غزہ پر مظالم کرنے کو دنیا کے سامنے لانا تھا۔ مگر اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ معاملہ صرف ہمارے چند فیصد طبقہ کی طرف سے سامنے آیا۔
جو موجودہ دنیا میں طاقت کے توازن کی فہم نہیں رکھتے اور جنھیں اپنے معروضی حالات کا بالکل علم نہیں۔ وہ ابھی تک اس سحر میں ہے کہ ہمارا ملک اسلام کی ایک سپر پاور ہے۔ کیا یہ مفروضہ درست ہے ۔ قطعاً نہیں بالکل نہیں۔ ہماری معاشی اور عسکری قوت حد درجہ محدود ہے اور یہ صرف اور صرف ایک مضبوط دفاع کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ بھی کہنا صرف اور صرف اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہو گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم پوری دنیا میں اپنا ڈنکا بجوانا چاہتے ہیں۔ مگر ہمارے پلے کچھ بھی نہیں ہے۔ مغربی طاقتوںا ور بین الاقوامی اقتصادی ادارے ‘ ہر لحاظ سے ہمارے اوپر حاوی ہو چکے ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر ہم سانس تک نہیں لے سکتے۔ ہمارے کسی بھی ادارے اور سیاسی جماعت کے پاس ملک کی دگر گوں معاشی معاملات کو بہتر کرنے کا کوئی پروگرام یا پالیسی نہیں ہے۔ دراصل ہم غلام محمد‘ سکندر مرزا اور ایوب خان کے دورانیہ ہی میں رہ رہے ہیں۔
جس میں معاشی ترقی صرف اور صرف ثانوی گردانی جاتی ہے۔ بااثر طبقہ کا سارا کاروبار تو مغربی ممالک میں ہے۔ ان کا سرمایہ تو وہاں کے بینکوں میں محفوظ ہے تو پھر انھیں ملک کی معیشت کی بحالی سے کیا لینا دینا۔
آپ ہمارے سیاسی رہنماؤں اور اداروں کے سربراہان کا ٹھاٹھ باٹھ دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ ایک مفلوک الحال ملک کے قائدین ہیں یا کسی حد درجہ اقتصادی طور پر طاقتور ملک کے نمایندے ہیں؟۔ 1947ء سے آج تک ہم دائروں میں سفر کر رہے ہیں۔ ہماری تمام توجہ اس بات پر ہے کہ کس کو جائز یا ناجائز طریقے سے حکومت عطا کرنی ہے۔
کس طرح حددرجہ شاہی مراعات حاصل کرنی ہیں۔ اور کس طرح پیسہ کمانا ہے۔ حالیہ الیکشن اس کی ایک واضح مثال ہے۔ پورے ملک کو پتہ ہے کہ اصل میں کون جیتا ہے اور کون ہارا ہے۔ مگر کہا جا رہا ہے کہ نتائج کو تبدیل کیا گیا ہے۔ جعلی بیلیٹ پیپر تک چھاپنے کی قبیح روداد سامنے آئی ہے۔ حکومتیں کس طرح‘ بازو مروڑ کر بنائی جا رہی ہیں۔ اس کا بھی سب کو علم ہے۔ مگر ہم اپنی منفی روش بدلنے کو تیار نہیں ہیں۔