نواز شریف نے اپنی زندگی میں ہی مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے، انکے اس فیصلے کے خلاف پہلی بغاوت چوہدری نثار علی خان نے کی جنہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا، چوہدری نثار علی خان مریم نواز کیمپ کا پہلا ٹارگٹ بنے۔
نواز شریف در اصل مریم نواز کے سیاست میں آنے کے سخت مخالف تھے وہ مشرقی روایات کے علمبر دار تھے وہ یہ سمجھتے تھے پاکستانی معاشرے میں عورت کو سیاست میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن بیگم کلثوم نواز نے، مریم نواز کی ملکی سیاست میں دلچسپی کے باعث میاں صاحب کو قائل کر ہی لیا۔
انہوں نے مریم نواز کو محدود پیمانے پر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دے دی مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا ٹیم کا سربراہ بنایا گیا تو کئی حلقوں میں ان کی ٹیم کی جارحانہ مہم کی تپش محسوس کی گئی اگرچہ مریم نواز سعودی عرب میں جلا وطنی کے زمانے سے مجھے جانتی تھیں لیکن ان سے پہلی ملاقات وزیراعظم ہائوس میں ہوئی جب نواز شریف کے اقتدار کا سنگھاسن ڈول رہا تھا سوشل میڈیا ٹیم کے ارکان جن میں پرویز رشید، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، بیرسٹر دانیال چوہدری اور مصدق ملک کے نام قابل ذکر ہیں، موجود تھے۔ مریم نواز سے پہلی ملاقات میں ہی اندازہ ہوگیا کہ ان کے اندر ’’چھپا سیاست دان‘‘ ایک دن پوری آب و تاب سے آسمان سیاست پر چمکے گا نواز شریف کے اقتدار کے خاتمہ کے ساتھ ہی مریم نواز کو بھی ’’ناکردہ گناہوں‘‘ کی سزا دی گئی اور انہیں بھی جیل میں ڈال دیا گیا، مجھے اس دوران اڈیالہ جیل میں نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقاتوں کا موقع ملا، مجھے جہاں نواز شریف کے چہرے پر پریشانی کے کوئی آثار نظر نہ آئے وہاں مریم نواز کو’’آئرن لیڈی‘‘ پایا۔
مریم نواز نے جرات سے جیل کاٹی اورخود کو نواز شریف کی کمزوری نہ بننے دیا، مریم کو جلسوں میں ملنے والی پذیرائی کے پیش نظر نواز شریف نے انہیں پارٹی کا چیف آرگنائزر و سینئر نائب صدر بنایا تو خلاف توقع پہلا استعفیٰ شاہد خاقان عباسی کا آیا، عام انتخابات سے قبل ہی ان کی مسلم لیگ (ن) سے راہیں جدا ہو گئیں،چوہدری نثار علی خان نے جو راستہ 6 سال پہلے اختیار کیا تھا وہ شاہد خاقان عباسی نے بعد میں اختیار کرلیا۔ لال حویلی کا ’’مکین‘‘ مسلم لیگ ن سے ش نکلنے کی پیشگوئی کرتے کرتے خود کہیں کھو گیا۔ اگر چہ 2024کے انتخابات میں نواز شریف اور مریم نواز کو کامیابی حاصل ہوئی ہے تاہم وفاق میں مسلم لیگ (ن) واحد اکثریتی جماعت بن کر نہ ابھری لیکن 2018کی طرح اسے پنجاب جو مسلم لیگ (ن) کا پاور بیس ہے اکثریت مل گئی۔
نواز شریف نے وفاق میں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا نے اورپنجاب اپنی صاحبزادی مریم نوازکے حوالے کرنے کا سرپرائز دیا ہے بظاہر مریم نواز میدان سیاست میں طفل مکتب نظر آتی ہیں لیکن نواز شریف نے انہیں اپنے آخری دور حکومت میں نہ صرف رموز سیاست سےآگاہ بلکہ پارٹی کو ان کے تابع کر دیا۔ جیل یاترا نے انہیں کندن بنا دیا۔
مریم نواز کے لئے اس منصب کا انتخاب کیا گیا ہے جس پران کے والد نواز شریف اور چچا شہباز شریف متمکن رہ چکے ہیں ۔عام انتخابات کے نتائج کے مطابق پنجاب جو نہ صرف ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آیا ہے 1947ء سے لے کر اب تک20وزرائے اعلیٰ ’’تخت لہور‘‘ پر براجمان ہوئے ہیں۔
ان میں افتخار حسین ممدوٹ، ممتاز دولتانہ، ملک فیروز خان نون، عبدالحمید دستی، معراج خالد، غلام مصطفیٰ کھر، حنیف رامے، صادق حسین قریشی، نواز شریف ، غلام حید وائیں، منظور وٹو ، شیخ منظور الٰہی، عارف نکئی، میاں افضل حیات، شہباز شریف ، چوہدری پرویز الہٰی، شیخ اعجاز نثار، دوست محمد کھوسہ، نجم سیٹھی، حسن عسکری، عثمان بزدار، حمزہ شہباز اور محسن رضا نقوی کے نام قابل ذکر ہیں، پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو واضح اکثریت ملنے سے اہم فیصلے کرنے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہو گی مسلم لیگ (ق) اور استحکام پاکستان پارٹی کی حمایت سے صوبائی حکومت کو ’’کمفرٹ‘‘ ماحول میں کام کرنے کا موقع ملے گا لیکن سنی اتحاد کونسل کی صفوں میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان مسلم لیگی حکومت کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیں گے وہ ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے‘‘ کی سوچ سے پنجاب اسمبلی میں آرہے ہیں۔
چناچہ مسلم لیگ (ن) کے لئے ایک بڑا امتحان ہو گا وزیر اعلیٰ کو ’’جارحانہ مزاج ‘‘ جاتی امرا میں چھوڑ کر ایوان میں آنا ہو گا اور انہیں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی پر ’’برداشت اور صلح جوئی‘‘ کی پالیسی اختیار کرنا ہو گی مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے غریب آدمی کو 200یونٹ مفت بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک مفت تعلیم کر کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی لوٹ مار ختم کی جائے، مفت علاج کےپروگرام کو یقینی بنایا جائے، در حقیقت عام آدمی کے چہرے پر مسکراہٹ واپس لانا حکومت کا ایجنڈا ہونا چاہیے،پنجاب اسمبلی کے ارکان کو جہاں وزیر اعلیٰ تک رسائی کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے وہاں انہیں ہفتہ میں ایک بار عام لوگوں کی براہ راست فون پر شکایات کو سننا چاہیے کرپشن پر ’’زیرو ٹالرنس‘‘ ہونی چاہیے۔