قومی حکومت : قومی مفادات

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کا جائزہ لیں تو سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کے اپنے مسائل کی وجہ سے ان کی سیاسی مخالفت ذاتی مخاصمت بن جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور نقصان پہنچانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔

اُنیس سو نوے دہائی اس حوالے سے بدنام ہے لیکن بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے سیاسی میچورٹی کا مظاہرہ کیا، ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے میثاق جمہوریت کیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سیاسی میدان میں واپس آئے۔ بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو کا پاکستان واپسی کے بعد قتل ہوگیا۔ 2008ء کے انتخابات اور اس کے بعد آسانی سے بننے والی حکومتوں کی وجہ میثاق جمہوریت تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی اس کی پختگی نظر آئی۔ 18ویں ترمیم بھی اسی وجہ سے ہوئی۔ 2018ء میں حالات پھر خراب ہوئے۔

میاں نواز شریف کو عدالت کے ذریعے پانامہ سے اقامہ پر نکالا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھایا گیا اور بانی پی ٹی آئی کو اقتدار دیا گیا جن کا دور ہابرڈ کہلایا۔ بدقسمتی سے بانی پی ٹی آئی ڈیلور نہیں کرسکے۔ ان کی حکومت خصوصاََ پنجاب حکومت پر بہت سارے سوالات اٹھتے رہے۔ تحریک انصاف بھی اپنی حکومت کی مدت پوری نہ کرسکی۔ بانی پی ٹی آئی کو جو شہرت اقتدار سے نکل کر ملی وہ اقتدار میں رہ کر نہیں مل سکتی تھی۔

پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت میں مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل کی وجہ سے چیلنجز پیدا ہوا۔پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہوئے۔ 2024ء کے انتخابات کی مماثلت 2008ئ، 2013ء اور 2018ء کے انتخابات سے دکھائی دیتی ہے اور بعض پہلوؤں میں کچھ نیا بھی ہے۔ یہ انتخابات 2023ء میں ہونے تھے مگر حالات کی خرابی کی وجہ سے نہیں ہوئے۔ 2024ء کے انتخابات سے پہلے جس طرح کی الزام تراشی اور سیاست کی گئی اس سے معیشت اور معاشرت دونوں کا نقصان ہوا۔ اس کا حل یہ ہے کہ ملک کو قومی حکومت کی طرف جانا چاہیے۔

بانی پی ٹی آئی کے معاملات قانون کے مطابق جاری رہنے چاہئیں لیکن ان کی جماعت کو آن بورڈ لیکر قومی حکومت کا حصہ بنانا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی بات حماقت ہے۔

اس سے قومی سوچ کو ٹھیس پہنچی ہے اور ملکی ساکھ کو بھی نقصان ہوگا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے قومی مفادات کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے جو افسوسناک ہے۔ اسی طرح کمشنر راولپنڈی اپنے بیان سے مکر گئے اور الزام لگایا کہ انہیں تحریک انصاف نے کہا تھا۔ ان حرکات سے ہمارے ملک کی وحدت پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ مرکز میں مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت خطرناک رجحان ہے۔

بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختونخوا میں قوم پرست جماعتوں اور جمعیت علماء اسلام (ف) کو وہ نمائندگی نہیں ملی جو پہلے ملتی تھی۔اس سے آگے چل کے قومی وحدت اور یکجہتی کی سوچ کے مسائل پیدا ہونگے۔ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر سنجیدگی سے تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ ہمیں تشدد اور گالم گلوچ کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔ جھوٹی خبروں اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا۔ اس سے ہمارے معاشرے میں تقسیم پیدا ہو رہی ہے، مسائل بڑھ رہے ہیں۔

پاکستان پولرائزیشن نہیں بلکہ تقسیم کی طرف جا رہا ہے جو افسوسناک ہے۔ موجودہ حالات کی بنگلہ دیش سے مماثلت غلط ہے۔ ہمارے تمام صوبوں میں محب وطن پاکستانی ہیں، اگر کہیں زیادہ احساس محرومی ہے تو وہ بلوچستان میں دکھائی دیتا ہے جسے دور کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو کام کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک مسائل کا حل قومی حکومت ہے، اس کی طرف جانا ہوگا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جیتنے اور ہارنے والے دونوں ہی الزامات لگا رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔

وقت ہے کہ پاکستانی بن کر سوچا جائے۔ سیاسی جماعتیں اور شخصیات چھوٹی چیزیں ہیں۔ قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہوگا۔ میاں شہباز شریف، پیپلز پارٹی اور صحت مند سوچ کے حامل افراد نے پاکستان تحریک انصاف سے کہا کہ مخلوط حکومت کا حصہ بن جائیں لیکن پی ٹی آئی نے وہی سٹرٹیجی اپنائی جو 2013ء میں اپنائی گئی تھی کہ 35پنکچر اور دھاندلی ہوئی ہے۔

اسی طرح 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی مخلوظ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن دھاندلی کا الزام لگایا۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کو جتنی نشستیں ملی ہیں، ان سے یہ سمجھ نہیں ہا رہی کہ دھاندلی ان کے حق میں ہوئی یا مخالف۔

مبصرین کے خیال میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن شاید وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ منظم دھاندلی ہوئی ہے۔ بظاہر ایسا نظر بھی نہیں آتا لہٰذا اب یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے ، وہاں اصل حقائق سامنے آئیں گے۔ ہمارے ملک میں کھینچا تانی زیادہ اور ملکی سوچ کم ہوتی جا رہی ہے جس کا نقصان ہورہا ہے۔ہمیں قومی حکومت کی طرف جانا ہوگا۔