اگر آپ کا شمار بھی ان تین میں سے ایک افراد میں ہوتا ہے جن کی نیو ایئر ریزولیوشن وزن کم کرنا ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ آپ اب اس بات پر غور کر رہے ہوں گے کہ وزن کم کرنے کے لیے آپ کو کیا کرنا چاہیے۔
لیکن اگر آپ آن لائن سرچ انجن پر ’وزن کم کرنے کے طریقے‘ لکھتے ہیں تو شاید آپ کو جوابات تو نہ ملے ہوں لیکن کچھ سولات ضرور پیدا ہوئے ہوں گے۔
یقینی طور پر بہت سی وزن کم کرنے میں مددگار ایپلیکیشنز اور کیلکولیٹرز کی دستیابی سے یہ ہدف حاصل کرنا آسان لگتا ہے۔ وہ روایتی طور پر باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) کا حساب لگا کر ’صحت مند‘ وزن بتائے گا اور اس رینج کے مطابق وزن کم کرنے کا منصوبہ پیش کرے گا۔
آپ کی اسکرین فِٹ نظر آنے والے انفلواینسر سے بھر جائے گی جو آپ کو ایک مہینے میں 10 کلو وزن کم کرنے میں مددگار غذا تجویز کرے گے، یا پھر آپ ایسی گولیوں اور ورزش کے اشتہارات نظر آئیں گے جو آپ کو آسانی اور تیزی سے وزن کم کرنے میں مدد کرنے کا دعویٰ کریں گے۔
بہت سے اشتہار آپ کو تجویز دیں گے کہ آپ کو صحت مند رہنے کے لیے کتنا وزن کم کرنا ہے جس کا حصول ناممکن سا کام لگے گا۔ لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ صحت بخش فوائد حاصل کرنے کے لیے زیادہ وزن کم کرنا ضروری نہیں ہے۔
ہمارا معاشرہ اعدادوشمار کو اہمیت دیتا ہے۔ تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ ہم اپنے وزن کے لیے بھی اعداد اور حساب پر انحصار کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول بی ایم آئی ہے جوکہ ہمارے جسم کے وزن اور قد کا تناسب نانپتا ہے۔
بی ایم آئی جسم کی کم وزن، نارمل (صحت مند) وزن، زیادہ وزن یا موٹاپے کے طور پر درجہ بندی کرتا ہے اور وزن اور صحت کی جانچ کے لیے ایک مفید آلہ ہوسکتا ہے۔
لیکن جب ہم وزن کم کرنے کے اپنے اہداف طے کرتے ہیں تو صحت مند وزن کے لیے اسے پیمائش واحد پیمانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ،
یہ جسم میں چربی کا تناسب اور اس کی تقسیم جیسے وزن اور صحت سے منسلک دو اہم عوامل کو جانچنے میں ناکام رہتا ہے۔
یہ جنس، نسل اور عمر کی بنیاد پر جسم کی ساخت میں فرق نہیں کرپاتا۔
وزن کا کم ہونا ہماری صحت کے لیے کیسے فائدہ مند ہے؟
وزن میں کمی کے کیا صحت بخش فوائد ہیں؟
جسمانی وزن کا صرف 5 سے 10 فیصد بھی کم کرنا (جیسے 120 کلو وزن والے شخص کے لیے 6 سے 12 کلو وزن کم کرنا) کافی حد تک صحت کی بہتری میں چار طریقوں سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
کولیسٹرول کم کرنا
موٹاپے سے لو ڈینسٹی لیپوپروٹین (ایل ڈی ایل) کولیسٹرول جوکہ خراب کولیسٹرول تصور کیا جاتا ہے، اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ وزن ہمارے جسم میں لیپوپروٹین اور ٹرائیگلائسرائڈز کی پیداوار کو متاثر کرتا ہے جوکہ چربی کا ایک مالیکوئل ہے جسے ہم توانائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
زیادہ خراب کولیسٹرول ہونا اور زیادہ ٹرائیگلائسرائڈز ہونا اچھا نہیں ہے، یہ ہماری شریانوں کو تنگ کرتا ہے اور خون کی روانی محدود ہوجاتی ہے جس سے دل کے دورے اور اسٹروک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ محض 5 فیصد وزن کم کرنے سے مجموعی کولیسٹرول، ایل ڈی ایل اور ٹرائیگلائسرائڈز کی سطح میں بہتری ممکن ہے۔
بلڈ پریشر کم کرنا
ہمارا بلڈ پریشر کم از کم دو بار اگر 140/90 سے زیادہ ہو تو اسے بلندفشارِخون سمجھا جائے گا۔
بلند فشارِخون بہت سے طریقوں سے زیادہ وزن سے منسلک ہے بشمول اس بات کے بھی کہ ہمارا اعصابی نظام، خون کی شریانیں اور ہارمونز بلڈ پریشر کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں۔
بلند فشارِ خون کی وجہ سے ہمارا قلب اور شریانیں زیادہ کام کرتی ہیں لیکن ان کا کام زیادہ مؤثر نہیں ہوتا، اس سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری شریانوں کو نقصان پہنچتا رہتا ہے اور ساتھ ہی امراضِ قلب، دل کے دورے اور اسٹروک کے خطرات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
کولیسٹرول میں بہتری کی طرح، وزن میں پانچ فیصد کمی سیسٹولک بلڈ پریشر اور ڈائیسٹولک بلڈ پریشر دونوں کو بہتر بناتی ہے۔
وزن میں کمی کے بلڈ پریشر پر اثرات کے حوالے سے ہونے والے 25 ٹرائلز کے تجزیے میں پایا گیا کہ وزن میں ہر ایک کلوگرام کمی سے بلڈ پریشر میں ایک پوائنٹ کی بہتری آئی۔
ذیابیطس ٹائپ ٹو
ٹائپ ٹو ذیابیطس کے لیے زیادہ جسمانی وزن اہم خطرہ سمجھا جاتا ہے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جن کے پیٹ میں ویسریل فیٹ ہوتا ہے۔
اتنا زیادہ وزن ہونے کی وجہ سے ٹائپ ٹو ذیابیطس سے سنگین طبی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں اور اگر احتیاط نہ کی گئی تو اس سے دل، شریانوں، دیگر اہم اعضا، آنکھوں اور نروس سسٹم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تحقیق بتاتی ہے کہ 7 فیصد وزن کم ہونے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس ہونے کا خطرہ 58 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔
زیادہ وزن بڑھ جانے سے جوڑوں میں بھی درد کی شکایات ہوتی ہیں، جوڑوں میں سوجن ہوتی ہے اور انہیں نقصان ہوتا ہے، جس سے اوسٹیو ارتھرائٹس کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔
مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ وزن زیادہ ہونے سےکسی شخص میں اوسٹیو ارتھرائٹس ہونے کا امکان دوگنا ہوجاتا ہے جبکہ موٹاپا اس خطرے کو چار گنا بڑھا دیتا ہے۔
بےشک وزن میں کمی سے جوڑوں سے کافی حد تک دباؤ کم ہوتا ہے۔ تحقیق سے سامنے آیا کہ وزن میں ہر کلوگرام کمی کے نتیجے میں روزانہ کی سرگرمیوں کے دوران اٹھائے گئے ہر قدم میں گھٹنے پر پڑنے والے بوجھ میں چار گنا کمی واقع ہوئی۔
طویل مدتی عادات پر توجہ دیں
اگر آپ نے کبھی وزن کم کیا ہو لیکن آپ کو لگا ہو کہ جو وزن میں نے کم کیا وہ اتنی ہی جلدی واپس آگیا ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں جن کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔
وزن میں کمی کے حوالے سے 29 طویل المدتی مطالعات کے تجزیے سے پتا چلا کہ شرکا کا نے جتنا وزن کم کیا اس کا نصف دو سال کے اندر ہی واپس آگیا اور پانچ سالوں کے اندر یہ شرح 50 سے 80 فیصد ہوگئی۔
جب ہم وزن کم کرتے ہیں تو ہم اپنے جسم میں تبدیلی لا کر اسے اس کے کمفرٹ زون سے باہر لے آتے ہیں اور ساتھ ہی وہ واپس اپنی پرانی حالت میں جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے بعد یہ وزن میں کمی کا مقابلہ کرتا ہے جس سے کئی جسمانی ردعمل پیدا ہوتے ہیں۔
وزن جیسے کم کیا جاتا ہے اس سے بھی جلدی واپس وزن واپس آجاتا ہے
جیسے یہ مسئلہ ارتقائی ہے بالکل ویسے ہی اس کا حل بھی ارتقائی ہے۔ طویل مدتی طور پر وزن کم کرنے میں کامیابی کے لیے،
وقفے وقفے سے اتنا وزن کم کرنا جتنا آپ برقرار رکھ سکیں، خاص طور پر وزن میں کمی کے ادوار، اس کے بعد وزن کو برقرار رکھنے کا مرحلہ اور اسی طرح کرتے رہیں جب تک کہ آپ اپنا مطلوبہ وزن حاصل نہ کرلیں۔
آہستہ آہستہ اپنی عادات زندگی میں تبدیلی لےکر آئیں تاکہ اپنائی جانے والی عادات آپ کی زندگی کا پختہ حصہ بن سکیں۔
صحت مند وزن تک پہنچنے کے لیے ایک مقصد طے کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ لیکن ’صحت مند‘ بی ایم آئی کی حد کے مطابق اس کا پہلے سے طے شدہ وزن ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہمارے جسمانی وزن کا پانچ سے دس فیصد کم کرنے سے صحت کے فوری فوائد حاصل ہوں گے۔