سردار ایاز صادق : سیاسی کامیابیاں

سردار ایاز صادق سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست تصور کیے جاتے تھے۔ دونوں نے تعلیم بھی ایک ہی ادارے سے حاصل کی۔ سردار ایاز صادق نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ بھی عمران خان ہی کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر لیا۔

دوسری طرف لاہور سے عمران خان کی انتخابی سیاست کا آغاز بھی سردار ایاز صادق کے حلقے سے ہوا۔ وہ قومی اسمبلی اور ایاز صادق پنجاب اسمبلی کے امیدوار تھے۔ دونوں ہار گئے۔ پھر سیاست میں دونوں کی راہیں جدا ہوئیں۔

اسی حلقے سے جہاں سے ’دونوں دوست‘ عمران خان اور ایاز صادق پہلی مرتبہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑے، بعد میں وہیں سے وہ حریف کے طور ایک سے زیادہ مرتبہ انتخابات میں اترے۔ ہر مرتبہ ایاز صادق نے عمران خان کو شکست دی۔

پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر تاریخ ان دونوں کو بار بار آمنے سامنے لاتی رہی۔ وہ سردار ایاز صادق ہی تھے جنھیں سنہ 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کارروائی چلانے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کی نشست پر بٹھایا گیا۔

صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے سردار ایاز صادق نے سنہ 2002 میں پہلی مرتبہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی پہنچنے کے بعد ملک میں اب تک ہونے والے ہر انتخاب میں حصہ لیا اور ہر بار جیتے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ تیسری مرتبہ قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے ہیں۔

اتحادی حکومت میں اس مرتبہ اور بھی نام گردش میں رہے تاہم ایاز صادق ن لیگ، پی پی پی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار بننے میں کامیاب ہو گئے۔

سابق کرکٹر اور 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے والے پاکستان کے مقبول ترین کپتان عمران خان نے جب سیاست میں حصہ لینے کا ارادہ کیا تو سنہ 1996 میں انھوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی۔

اس ہی برس ایک صدارتی فرمان نے اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کی حکومت کو تختہ الٹ دیا۔ نئے عام انتخابات سنہ 1997 میں ہوئے۔ ان میں پی ٹی آئی نے پہلی مرتبہ حصہ لیا۔ جماعت کے سربراہ عمران خان نے لاہور کے ایک حلقے سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا۔

عمران خان کے ساتھ ساتھ یہ سردار ایاز صادق کے لیے بھی انتخابی سیاست کا باقاعدہ آغاز تھا۔

صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر ایاز صادق ہی عمران خان کو اپنے حلقے یعنی گڑھی شاہو کے علاقے سے انتخاب لڑنے کے لیے لائے تھے۔‘

ماجد نظامی کے مطابق ایاز صادق ایم پی اے کے لیے جبکہ عمران خان ایم این اے کے لیے امیدوار بنے تاہم دونوں ہی ہار گئے۔

’یہ دونوں ایچیسن کالج لاہور میں ایک ساتھ پڑھتے تھے اور دوست بھی تھے۔ جب عمران خان نے سیاسی جماعت بنائی تو ایاز صادق اس میں شامل ہو گئے۔‘

تاہم سیاست میں ان کا ساتھ زیادہ دیر نہ چل پایا۔ ایک ساتھ انتخاب لڑنے کے اگلے ہی برس ایاز صادق نے عمران خان کی جماعت سے راہیں جدا کر لیں۔

سنہ 1997 میں نواز شریف کی جماعت بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی تاہم دو سال بعد ہی اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے فوجی بغاوت کے نتیجے میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔

سنہ 1999 میں پیدا ہونے والے حالات میں سابق فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ ایک ڈیل کے نتیجے میں شریف خاندان کو جیلوں سے نکال کر دس برس کے لیے سعودی عرب کی طرف جلا وطن کر دیا گیا۔

اسی دور سنہ 2000 میں سردار ایاز صادق نے سعودی عرب میں ن لیگ کے سربراہ نواز شریف سے ملاقات کی۔ واپسی پر انھوں نے لاہور میں ایک تقریب کے دوران ن لیگ میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کر دیا۔