خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں جمعہ یکم مارچ 2024 کو وزیر اعلیٰ کے لیے ہونے والے چُناؤ میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے نامزد پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما علی امین گنڈاپور وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا منتخب ہوئے۔
قائدِ ایوان منتخب ہونے کے لیے ان کے حق میں 90 ممبرانِ صوبائی اسمبلی نے ووٹ دیا۔ ان کے مخالف امیدوار پاکستان مسلم لیگ ن کے عباد اللہ خان نے 16 ووٹ حاصل کیے۔
آزاد حیثیت میں ڈیرہ اسماعیل خان سے الیکشن جیتنے والے علی امین گنڈا پور کو سنی اتحاد کونسل کی حمایت حاصل تھی جبکہ ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن کے عباد اللہ خان تھے جنھیں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی حمایت بھی حاصل تھی۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے افراد کی جانب سے سابق وزیرِاعظم عمران خان کے حق میں نعرے بھی لگائے گئے اور ایوان ’تیرا میرا یار، قیدی نمبر 804، نہ وہ باغی نہ غدار قیدی نمبر 804‘ کے نعروں سے گونج اُٹھا۔
صوبائی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں نو منتخب وزیرِ اعلٰی علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ’میں سترہ سال سے ایک پارٹی کا رکن ہوں لیکن آج میں ایک آزاد حیثیت ہے یہاں وزیر اعلٰی بنا، مجھے اس کا بہت دکھ ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں علی امین گنڈاپور گذشتہ برس 9 مئی کے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں میں اپنے ملوث نہ ہونے کی نہ صرف دلیلیں دیتے ہوئے نظر آئے بلکہ انھوں نے پولیس حکام کو الٹی میٹم بھی دیا کہ جو لوگ ان واقعات میں ملوث نہیں ان کے خلاف ایف آئی آر اگلے ایک ہفتے میں ختم کی جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں 9 مئی کے حوالے سے کچھ علم نہیں تھا اور اپنے گھر پر موجود تھے لیکن پھر بھی ان کے خلاف 9 ضلعوں میں مقدمات درج کر لیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ایک ہفتے میں غلط مقدمات ختم نہ کیے گئے تو حکام کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
علی امین گنڈاپور نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ یکم رمضان سے صوبے میں ہیلتھ کارڈ کی سہولت دوبارہ سے شروع کی جائے گی اور لنگر خانے بھی دوبارہ کھول دیے جائیں گے۔
خیبرپختونخوا کے نومنتخب وزیرِاعلیٰ کا کہنا تھا کہ خواتین کو وراثت کے حقوق دلوانے کے لیے انھیں مفت لیگل تعاون دیا جائے گا جبکہ جو ٹیکس نہیں دیتے اُن سے ٹیکس وصول کرنا بھی صوبائی اسمبلی کی ترجیحات میں شامل ہوگا۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کی جانب سے پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈاپور کو خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلٰی کے امیدوار کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
عمران خان کی جانب سے کیے گئے اس اعلان کے بعد سے اس فیصلے پر خاصی تنقید بھی ہوئی اور سوشل میڈیا پر ان کے ماضی میں دیے گئے متنازع بیانات اور واقعات شیئر کیے گئے۔
آئیے آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور کون ہیں اور صوبائی سطح پر اپنی جماعت کے لیے انھوں نے کون سے کام کیے جن کے باعث ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
علی امین گنڈا پور کی نامزدگی ایک ایسے وقت میں کی گئی جب ان کے والد میجر ریٹائرڈ امین اللہ گنڈا پور کی وفات ہوئی۔
علی امین کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے گنڈا پور قبیلے سے ہے۔
علی امین گنڈا پور نے ابتدائی تعلیم سینٹ ہیلن ہائی سکول ڈیرہ اسماعیل خان میں حاصل کی اور پھر وہ پولیس پبلک سکول پشاور آ گئے تھے۔
علی امین سکواش کے اچھے کھلاڑی تھے اور مختلف ٹورنامنٹس میں حصہ لے چکے تھے۔ انھوں نے بی اے آنرز گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے کیا۔ علی امین اور ان کے بھائی سپورٹس اور ماڈلنگ میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔
سیاست میں ان کی دلچسپی اس وقت شروع ہوئی جب ان کے والد میجر ریٹائرڈ امین اللہ کو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں صوبائی وزیر مقرر کیا گیا تھا۔
علی امین گنڈا پور نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور عمران خان کے قریب ہو گئے۔
علی امین نے سنہ 2013 کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ سنہ 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی جانب سے بڑی تعداد میں نئے چہرے سامنے آئے تھے جن میں علی امین بھی شامل تھے۔ علی امین گنڈا پور ان انتخابات میں ڈیرہ اسماعیل خان سے صوبائی نشست پر منتخب ہوئے اور اپنے بڑے بالوں اور بڑی مونچھوں کے علاوہ اپنے قد اور جسامت کی وجہ سے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
علی امین گنڈا پور 2013 میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہونے کے بعد ریوینیو منسٹر رہے تھے جبکہ 2018 میں انتخابات کے بعد وہ قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے اور وہ وفاقی وزیر رہے ہیں۔
علی امین نے منتخب ہونے کے بعد اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں اور لوگوں کے مسائل کے حل کی طرف بھرپور توجہ دی جس وجہ سے وہ علاقے میں مقبولیت حاصل کرتے رہے۔
علی امین کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف واٹس ایپ گروپس میں شامل ہیں اور اگر کہیں ان کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے تو وہ اس کا جواب دیتے ہیں اور اگر کہیں کسی کو شکایت یا ان کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ بھی حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کا بنیادی مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا رہا ہے اور علی امین نے اس کے لیے یوتھ فورس بنائی تھی۔ جس علاقے کا ٹرانسفارمر خراب ہوتا تھا تو نوجوان اسے فوری طور پر مرمت کروانے اور بجلی کی بحالی کے لیے کام کرتے تھے۔