پیپلزپارٹی کے سینیئررہنما خورشید شاہ نے 26 فروری کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہماری پارٹی نے سب سے پہلے پی ٹی آئی سے رابطہ کیا مگر اُن کی طرف سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا گیا۔‘
خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی جانب سے ایک عرصے سے یہ بیانیہ بنایا گیا ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ’ملک کی مشکلات کی اصل وجہ ہیں۔‘
تو کیا ایسے میں پی ٹی آئی کو اپنے اس بیانیے کی پاسداری کا معاملہ درپیش تھا یا یہ نئے حکومتی سیٹ اَپ میں اس کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی؟ اور یہ بھی کہ کیا کسی موقع پر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھیں؟ آئیے ان سوالات کے جوابات جاننے کے کوشش کرتے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے پی ٹی آئی کے بجائے مسلم لیگ نواز پر زیادہ تنقید کی تھی۔
اگرچہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ الیکشن کے نتیجے میں مخلوط حکومت تشکیل پائی تو وہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں سے کسی کے ساتھ سیاسی تعاون نہیں کریں گے۔
تاہم الیکشن کے بعد بلاول کی جماعت یعنی پیپلز پارٹی ن لیگ سے زیادہ پی ٹی آئی سے تعاون کی خواہش مند دکھائی دی۔
گذشتہ دِنوں بلاول بھٹو زرداری کا نیو کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا ’سُنی اتحاد کونسل کے پاس حکومت بنانے کے نمبرز پورے نہیں، پی ٹی آئی نے شہباز شریف کے وزیرِ اعظم بننے کا راستہ روکنے کے بجائے یہ اعلان کر دیا کہ وہ پیپلزپارٹی کے پاس نہیں آئیں گے۔‘
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ الیکشن کے نتائج کے بعد پیپلز پارٹی کو یہ حیثیت حاصل ہوئی کہ اس کے تعاون کے بغیر وفاقی حکومت تشکیل نہیں دی جا سکتی تھی۔ پی ٹی آئی کو اس کا ادراک ہونے کے باوجود یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ پیپلز پارٹی کے پاس نہیں جائے گی۔
ابتدائی طور پر تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ دونوں جماعتوں یعنی پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد سے وفاق میں حکومت سازی کا عمل اُس وقت تک ممکن نہ ہو پاتا جب تک کسی تیسری جماعت جیسا کہ ایم کیو ایم کا ساتھ میسر نہ ہوتا۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی کی مخصوص سیٹوں کا معاملہ بھی اُلجھا ہوا ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کے پاس آپشن تھا کہ وہ پیپلزپارٹی سے سیاسی تعاون کر کے وفاق میں حکومت سازی کی طرف جا سکتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اس آپشن پر پیپلز پارٹی کو مثبت جواب کیوں نہ دیا؟ اور کیا پی ٹی آئی کچھ عرصے بعد مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے والی دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر پارلیمانی سے زیادہ مزاحمتی سیاست کی طرف جانے کی سوچ رکھتی ہے؟
اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین کہتے ہیں کہ ’ایک تو ہمیں دوسری جماعتوں پر اعتماد کے فقدان کا معاملہ تھا، جو جماعتیں ساڑھے تین برس پی ٹی آئی حکومت کا حصہ رہی تھیں وہ بعد میں پی ڈی ایم میں شامل ہو گئیں اور دوسرا پہلو یہ کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم نے ہمارے مینڈیٹ کو چرایا ہے، ہماری سیٹوں پر قبضہ کیا ہے، جو ہماری سیٹوں پر قبضہ کر چکے ہیں، ہم اُن کے ساتھ کیوں بیٹھیں؟‘