ایران میں 2022 میں ملک گیر حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کے بعد پہلے عام انتخابات یکم مارچ کے روز ہوئے ہیں۔
ایران میں ایک وقت میں اراکینِ پارلیمنٹ اور ماہرین کی اسمبلی کے اراکین کو منتخب کیا جاتا ہے۔ مجلس خبرگان رهبری یعنی ماہرین کی اسمبلی کے اراکین ایران کے رہبرِ اعلیٰ کا تقرر کرنے یا ان کو برخاست کرنے کے اختیارات رکھتے ہیں۔ ایران میں رہبرِ اعلیٰ کا عہدہ سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے جسے ’کمانڈر اِن چیف‘ بھی کہا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد ہونے والے ان انتخابات کو ایرانی نظامِ حکومت کا ایک امتحان کہا جا رہا ہے۔
ایران میں صدراتی امیدوار، پارلیمنٹ اور ماہرین کی اسمبلی کے اراکین بننے کے خواہشمند امیدواروں کو انتخابات لڑنے سے قبل نگہبان شوریٰ کی منظوری چاہیے ہوتی ہے۔
نگہبان شوریٰ میں علما اور قانون دان شامل ہوتے ہیں جن کی تقرری ملک کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کرتے ہیں۔
ایران میں 2009 کے صدارتی انتخابات کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جس کے بعد حکام کی جانب سے ان مظاہروں کو روکنے کے لیے پُرتشدد کارروائیاں بھی کی گئی تھیں۔
اس کے بعد ہونے والے تمام انتخابات میں ان تمام امیدواروں کو جو حکومتی حکام پر تنقید کرتے ہیں یا اصلاح کار امیدواروں کی حمایت کرتے ہیں انھیں انتخابات لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
نااہل ہونے والوں میں ایران کے چار سابق صدور اور دیگر بااثر سیاسی شخصیات شامل تھیں۔
ایرانی ووٹرز کے لیے معاشرتی آزادیاں اور معاشی صورتحال اہم ہے لیکن انتخابات کے ذریعے ملک میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ ان معاملات میں فیصلہ سازی کا اختیار پارلیمنٹ اور صدر کے پاس نہیں ہوتا بلکہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ کے پاس ہوتا ہے۔
ایران کی ابتر معاشی صورتحال میں ملک کی خارجہ پالیسیوں کا بڑا کردار ہے اور یہ پالیسیاں آیت اللہ خامنہ ای بناتے ہیں۔ ان کی جانب سے معاشرتی آزادیوں سے متعلق پالیسیوں پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس وقت حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ اور ماہرین پر مشتمل اسمبلی ان ہی افراد کے ہاتھ میں ہے جن کی تقرری کی منظوری آیت اللہ خامنہ ای دیتے ہیں۔
ان تمام چیزوں اور اصلاح کار یا جدت پسند امیدواروں کو نااہل قرار دیے جانے کے اقدمات کو دیکھتے ہوئے لوگ سمجھتے ہیں کہ جمعے کو ہونے والے انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم ہی ہو گا۔
پچھلے 11 پارلیمانی انتخابات کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2020 کے انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ سب سے کم 42 فیصد تھا۔ اس سے قبل انتخابات میں ٹرن آؤٹ ہمیشہ 50 فیصد سے زیادہ ہوتا تھا جبکہ 2016 کے انتخابات میں 62 فیصد ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
ایران میں 2021 کے صدارتی انتخابات میں بھی ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 49 فیصد تھا۔ ڈالے گئے ووٹوں میں ’مسترد شدہ‘ ووٹوں کی تعداد تقریباً 37 لاکھ تھی۔ یہ انتخابات ابراہیم رئیسی جیتے تھے اور ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
اب ایران میں انتخابی عمل میں لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور ملک میں احتجاجی مظاہروں کا دورانیہ بھی بڑھ رہا ہے۔
ایران میں 2019 اور 2017 میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جنھیں حکومت کی جانب سے طاقت کے زور پر کُچلا گیا تھا۔
ایران میں قدامت پسند سمجھی جانے والی حکومت کے لیے ایک ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ روایتی طور پر ان کے حامی سمجھے جانے والے اور انتخابات میں میں حصہ لینے والے افراد بھی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر رہے ہیں۔
اس گروہ کا ماننا ہے کہ حکومت کی طاقت بڑھنے اور انقلابی طاقتوں کے عروج سے بھی ملک میں نہ کوئی تبدیلی آئی اور نہ ہی نظام کی اصلاح ہو سکی۔
ایران میں اکثر طالب علموں کو رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کے لیے لے جایا جاتا ہے۔ ان طالبِ علموں کی تقاریر بھی خراب معاشی اور صورتحال سے متعلق شکایتوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومتی پالیسیوں سے اسرائیل اور امریکہ کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے اپنے حامیوں کو ووٹنگ میں نہ صرف حصہ لینے کے لیے کہا گیا ہے بلکہ اس عمل کو مذہبی فریضہ بھی قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’انتخابات میں حصہ لینا ایک فرض ہے اور جو بھی ان کی مخالفت کرتا ہے وہ دراصل ایران اور اسلام کی مخالفت کر رہا ہے۔‘
ایران میں حکام کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ انتخابات صاف و شفاف ہوں گے لیکن ماضی کی روایات دیکھتے ہوئے ان کے دعوؤں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔