وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کے جائزہ مشن سے آئندہ ہفتے اہم مذاکرات کے لیے تیار ی شروع کر دی ہے اور وفاقی کابینہ کی تشکیل و حلف برداری کے فوری بعد واشنگٹن کے اس قرض دہندہ کو رسمی دعوت بھیج دی جائے گی۔
اعلیٰ سرکاری ذرائع نے تصدیق کی کہ آئی ایم ایف بھی اسلام آباد سے رسمی دعوت کے حصول کا انتظار کر رہا ہے اور کابینہ کی تشکیل کے فوری بعد اس کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ایگر یمنٹ کے دوسرے جائزے کی تکمیل کے لیے مذاکرات شروع کر نے کی غرض سے پاکستان پہنچے گی جبکہ اسی دوران پاکستان نے 36 ماہ کے لیے توسیع شدہ فنڈ فسیلٹی کی تازہ ڈیل کے لیے درخواست بھی دے رکھی ہے۔
آئندہ کے ای ایف ایف پروگرام کے حوالے سے ابھی بات چیت نہیں ہوئی اور نہ ہی حتمی صورت اختیار کر پائی ہے لیکن اسلام آباد ای ایف ایف کو مضبوط بنانے کے امکان پر غور کریگا تاکہ فنانس کا دائرہ کار 6 ارب ڈالر سے 8 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکے۔
پہلا اور سب سے بڑا چیلنج جو آئندہ کے وزیراعظم کو درپیش ہوگا وہ ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف یعنی 890 ارب روپے مارچ 2024 تک جمع کرنا ہے۔ مارچ 2024 تک اگر اس میں کوئی شارٹ فال آیا تو آئی ایم ایف اپنا علاج لے کر سامنے آسکتا ہے جس میں اضافی ٹیکسوں کے اقدامات ہوں گے جو کہ موجودہ مالی سال کے باقی ماندہ عرصے میں نافذ کیے جائیں گے۔
اس چیلنجنگ کام کی سنگینی کو پیش نظر رکھتے ہوئے منتخب وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعظم ہاؤس میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی تاکہ ایف بی آر کی ٹیم سے مستقبل کے ٹیکسیشن نظام کی اوورہالنگ کے روڈ میپ پر بھرپور بریفنگ حاصل کی جاسکے۔
ایف بی آر نے تاحال 5 ارب 82 کروڑ روپے آئندہ مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے لیے جمع کیے ہیں لیکن اس میں 33 ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال ہے جو صرف فروری 2024 میں ہوا۔
ایف بی آر کو 3.58 ٹریلین روپے مارچ سے جون تک کے چار ماہ کے عرصے میں جمع کرنے ہیں تاکہ 9.415 ٹریلین روپے کا مطلوبہ ہدف 30 جون 2024 تک حاصل کیا جاسکے۔
مارچ 2024 میں ماہانہ ہدف 890 ارب روپے رہ گیا تھا جسے اب مکمل کیا جانا ہے تاکہ جنوری سے مارچ 2024 تک آئی ایم ایف کےلیے طے شدہ ہدف حاصل کیا جاسکے۔ آئی ایم ایف نے پہلے ہی 8 ہنگامی اقدامت لیے ہیں جو کہ ایف بی آر کریگا تاکہ اگر ماہانہ ہدف کے حصول میں یہ شارٹ فال آتا ہے تو ریونیو کا فرق پورا کیا جاسکے۔