روزہ کا لغوی معنی ہے کسی چیز سے رکنا اور اس کو ترک کرنا، روزہ کا شرعی معنی ہے مکلف اور بالغ شخص کا ثواب کی نیت سے طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور جماع کو ترک کرنا اور اپنے نفس کو تقویٰ کے حصول کیلئے تیار کرنا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا تھا‘‘ (البقرہ: 183)، رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار اور اہل ایمان کیلئے بخشش، رحمت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے۔
نبی کریمﷺ رمضان المبارک کی تیاری شعبان المعظم میں ہی شروع فرما دیتے، اسی لیے امت محمدیہؐ کے اکابرین کا بھی یہی معمول رہا کہ رمضان المبارک کیلئے خصوصی تیاری و اہتمام کرتے، اس مضمون میں انہیں احوال کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے، علماء کرام نے رمضان المبارک کے استقبال اور تیاری کیلئے بہت سی ہدایات و تجاویز بیان فرمائی ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
فراض، واجبات، توبہ و استغفار: آمد رمضان سے قبل فرائض و واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کریں، اگر ذمے میں قضا نمازیں یا روزے ہوں تو ادائیگی کی ترتیب بنائیں، سابقہ زندگی کی تمام لغزشوں پر سچی توبہ کریں دل کو گناہوں اور برے خیالات سے پاک کریں تاکہ گناہوں سے پاک ہو کر رمضان المبارک کا استقبال کریں۔
مسائل سیکھیں اور سکھائیں: روزہ، تراویح، صدقہ فطر، زکوٰۃ، اعتکاف اور دیگر احکامات سیکھیں اور سکھائیں۔
نفس کو تقویٰ کا پابند بنائیں:اپنے نفس کو ابھی سے تقویٰ کا پابند بنائیں، کیونکہ رمضان المبارک تقویٰ کی عملی تربیت گاہ اور اللہ رب العزت نے رمضان المبارک میں روزوں کی فرضیت کا اہم مقصد تقویٰ و پرہیز گاری کا حصول بتایا ہے۔
صلہ رحمی میں جلدی کریں: قطع رحمی یعنی رشتے ناطے توڑنا بہت بڑا گناہ ہے، قطع رحمی کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں، لہٰذا رمضان آنے سے قبل اس سنگین گناہ سے توبہ اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کریں، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد: اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ قطع رحمی کا معاملہ کیا جائے تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔
دل صاف کریں: ہمارا دل نفرت، انتقام اور حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے، دل میں نفرت اور کینہ رکھنے والے کی اللہ تعالیٰ مغفرت نہیں فرماتے، لہٰذا رمضان آنے سے قبل دل کو صاف کر کے عبادات کی طرف اسے متوجہ کریں، سب کو دل سے معاف کر دیں کسی کا کینہ اپنے دل میں نہ رکھیں (ابن ماجہ)
گزشتہ روزوں کی قضاء: گزشتہ سالوں کے روزے اگر کسی شرعی عذر سے رہ گئے ہوں تو ان کی قضا کر لیں تاکہ رمضان شروع ہونے سے قبل گزشتہ رمضان کے روزوں کا حساب بے باق ہوجائے۔
دُعاؤں کا معمول: رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے، لہٰذا ابھی سے اپنے آپ کو لمبی دعاؤں کا عادی بنائیں، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ نبی اکرمﷺ سے منقول دعاؤں کے الفاظ زبانی یاد کیے جائیں، مسنون الفاظ پر مشتمل دعاؤں میں تاثیر بھی زیادہ ہوتی اور قبولیت کا امکان بھی۔
صدقہ کرنے کی عادت: شعبان کے مہینے میں روزانہ کچھ نہ کچھ صدقہ کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ رمضان المبارک میں سخاوت کرنا آسان ہو جائے، حضرت ابن عباسؓ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ رسول اللہﷺ سب لوگوں میں زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو آپﷺ کی جودو سخا تیز چلتی خوشگوار ہوا سے بھی زیادہ ہوجاتی( صحیح بخاری)۔
کثرت تلاوت کا معمول: رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے، قرآن حکیم کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں: جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اس کیلئے اس کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے، میں نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے (جامع ترمذی: 2910)۔ تلاوتِ قرآن افضل ترین عبادات میں سے ہے۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے‘‘ (بیہقی، شعب الایمان، حدیث نمبر: 2022) اور یہ عظیم کتاب جس کی تلاوت کی بے پناہ فضیلت ہے رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں نازل ہوئی، اس لحاظ سے قرآن حکیم اور رمضان المبارک کا آپس میں گہرا تعلق ہے، رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا گویا اس تعلق کو مضبوط و مستحکم کرتا ہے۔
متعدد احادیث مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ آپﷺ رمضان المبارک میں قرآن حکیم کی تلاوت فرماتے اور جبرئیل امین علیہ السلام کو سناتے، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے: ’’حضرت جبرائیل امین رمضان کی ہر رات میں آپﷺ سے ملاقات کرتے اور آپﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے‘‘ (صحیح بخاری: 6)۔
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کیلئے شفاعت کریں گے، روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے (پینے) اور (دوسری) نفسانی خواہشات سے روکے رکھا پس تو اس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما، قرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما، آپﷺ نے فرمایا: ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘
شب بیداری کی عادت: رمضان میں راتوں کی عبادات (تراویح، تہجد وغیرہ) کا دورانیہ بڑھ جاتا، ان عبادات کو احسن انداز میں اور بلا تھکاوٹ سر انجام دینے کیلئے ضروری ہے کہ ابھی سے شب بیداری اور نفلی عبادات کا اہتمام کریں اور اپنے بدن کو عبادات کی کثرت کا عادی بنائیں تاکہ رمضان کی راتوں میں دقت پیش نہ آئے۔
انٹرنیٹ وسوشل میڈیا سے احتراز: رمضان میں اوقات کی قدردانی بڑی اہم ہے، آج کل انٹرنیٹ وسوشل میڈیا وقت کے ضیاع کا بڑا سبب بن رہے ہیں، لہٰذا رمضان سے قبل ان کے استعمال کو ختم یا محدود کرنے کی کوشش کریں، امام مالکؒ و دیگر اسلاف کا تو یہ معمول تھا کہ رمضان آتے ہی علمی مجالس بھی موقوف فرما دیتے اور تلاوت قرآن میں مشغول ہو جاتے۔
ٹی وی سے احتراز: ٹی وی خرافات کا مجموعہ ہے لہٰذا رمضان کی آمد سے قبل اس سے جان چھڑانے کی کوشش کریں، اگر کوئی دینی پروگرام درست بھی ہو تو اسے بنیاد بنا کر ٹی وی کے سامنے وقت ضائع کرنا عقلمندی نہیں کیونکہ دینی پروگرامز کے دوران اشتہارات میں موسیقی اور نامحرم عورتیں رمضان کی روحانیت ختم کرنے کیلئے کافی ہیں۔
رمضان سے پہلے پہلے خریداری کر لیں: رمضان عبادت کا مہینہ ہے شاپنگ وخریداری کا نہیں، نیز رمضان میں رش اور مہنگائی کی وجہ سے وقت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے لہٰذا رمضان کی آمد سے قبل شعبان میں ہی عید کی شاپنگ مکمل کر لیں اور اہل خانہ کو بھی یہ بات سمجھائیں۔
نظام الاوقات ترتیب دیں: رمضان المبارک سے قبل اپنا نظام الاوقات مرتب کریں، جس میں صبح اٹھ کر تہجد، ذکر، دعائیں، سحری، نماز فجر اور تلاوت سے لے کر افطاری، تراویح ودیگر معمولات تک کیلئے مناسب وقت متعین ہو اور نیند و آرام کی بھی بھرپور رعایت رکھی جائے۔
ملازم پر کام کا بوجھ ہلکا کریں: رمضان المبارک کی آمد سے قبل نوکر و ملازمین سے محنت طلب کام کروا لیں تاکہ روزے کی حالت میں ملازمین پر کام کا بوجھ ہلکا رہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان کے مہینے میں اپنے ملازم کے بوجھ کو ہلکا کر دے تو حق تعالیٰ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور اسے آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں(مشکوۃ شریف)۔
عمرے کی ترتیب بنائیں: رمضان میں عمرے کا ثواب حج کے برابر ہے، صاحب ثروت لوگ عمرے کی ترتیب بنائیں، اسی طرح مسجد حرام اور مسجد نبوی میں اعتکاف اور نمازوں کا ثواب دیگر مساجد سے بہت زیادہ ہے، یہ ثواب حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں۔
نیند کم کرنے کی عادت ڈالیں: اگر آپ 8 گھنٹے سونے کے عادی ہیں تو 6 گھنٹے سونے کی عادت ڈالیں تاکہ رمضان میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، تھکاوٹ سے بچنے کیلئے دن میں تھوڑی دیر قیلولہ کر لینا مسنون بھی ہے اور تہجد پڑھنے میں مددگار بھی۔
تکبیر اولیٰ کے ساتھ نمازیں پڑھیں: اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، رمضان المبارک میں اس کا اہتمام نسبتاً زیادہ آسان ہے، لہٰذا تکبیر اولیٰ کے ساتھ پنج وقتی نمازیں باجماعت پڑھنے کی ابھی سے ترتیب بنائیں۔
ملاقاتوں کا سلسلہ محدود کریں: رمضان میں تقاریب، ملاقاتوں اور دعوتوں کا سلسلہ محدود کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں صرف ہو سکے، البتہ بیمار کی عیادت اور تیمارداری اسی طرح میت کی تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ میں شرکت کے مواقع جتنے مل سکیں، غنیمت سمجھیں۔
چھوٹی چھوٹی سورتیں زبانی یاد کریں: قرآن کریم کی چھوٹی چھوٹی سورتیں ابھی سے یاد کرنا شروع کریں تاکہ نوافل اور تہجد میں انہیں پڑھا جا سکے، صرف ایک یا دو سورتوں کو بار بار دہرانا مثالی طرز عمل نہیں۔
بچوں کو روزے کی عادت ڈالیں: سات سال یا اس سے بڑے بچوں کو روزے کے حوالے سے خصوصی ترغیب دیں اور ان کی ذہن سازی کریں تاکہ رمضان میں انہیں روزے رکھنے کی عادت پڑجائے۔
کم کھانے کی عادت ڈالیں: شعبان میں کھانے کی مقدار خاص تناسب سے کم کریں، غذا میں سبزی، پھل اور کھجور کا استعمال زیادہ رکھیں تاکہ صحت و توانائی برقرار رہے، زیادہ کھانے کا بوجھ، بد ہضمی اور سستی عبادات میں رکاوٹ نہ بنے۔
رات جلدی سونے کی عادت ڈالیں: رات گئے تک سر انجام دی جانے والی سرگرمیوں سے آہستہ آہستہ کنارہ کشی اختیار کریں تاکہ آپ رمضان میں تراویح کے فوراً بعد بلا تاخیر سو سکیں، یاد رکھیں تہجد اور سحری میں ہشاش بشاش اٹھنے کا دارومدار بروقت سونے پر ہے۔