سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’جب ماہِ رمضان آجاتا ہے، تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنّم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں قید کردیا جاتا ہے۔‘‘
علامہ بدرالدین عینی نے عمدۃ القاری میں فرمایا: ’’جہنّم کے دروازے بند ہونے سے مراد یہ ہے کہ بندوں سے گناہ متروک ہوجاتے ہیں۔ جو جہنّم میں جانے کے اسباب ہوتے ہیں اور اس ماہ کی برکت سے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے اور بندے جہنّم سے محفوظ ہوجاتے ہیں اور شیاطین کے قید کرنے سے مراد بھی گناہوں میں کمی کا ہونا ہے۔ جیسا کہ ماہِ رمضان میں محسوس ہوتا ہے۔ مساجد آباد ہو تی ہیں اور مجموعی طور پر گناہوں میں کمی آجاتی ہے۔ اس کے علاوہ محدثین نے بھی تاویلیں فرمائی ہیں۔‘‘
حضرت مولانا مفتی احمد یار خاں نعیمیؒ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’حق یہ ہے کہ ماہِ رمضان میں آسمانوں کے دروازے کھلتے ہیں، جن سے اﷲ تعالیٰ کی خاص رحمتیں زمین پر اترتی ہیں اور جنتوں کے دروازے بھی کھلتے ہیں، جس کی وجہ سے حور و غلمان کو خبر ہوجاتی ہے کہ دنیا میں ماہ رمضان آگیا ہے اور وہ روزہ داروں کے لیے دعاؤں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور فرماتے ہیں ماہِ رمضان میں واقعی دوزخ کے دروازے ہی بند ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس مہینے میں گناہ گاروں، بل کہ کافروں کی قبروں پر بھی دوزخ کی گرمی نہیں پہنچتی اور حقیقت میں ابلیس مع اپنی ذریت کے قید کردیا جاتا ہے۔ اس مہینے میں جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ اپنے نفس امارہ کی شرارت (جو گیارہ ماہ شیطان کی سنگت میں خراب ہوتا گیا) سے کرتا ہے۔‘‘
مفتی احمد یار خاں نعیمیؒ فرماتے ہیں: ’’فقیر کی اس تقریر سے اس حدیث کے متعلق بہت سے اعتراضات رفع ہوگئے۔ مثلاً یہ کہ جب ابھی جنت میں کوئی جاہی نہیں رہا۔ تو اُس کے دروازے کھلنے سے کیا فائدہ یا یہ کہ جب دوزخ کے دروازے بند ہوگئے تو ماہ رمضان میں گرمی کہاں سے ؟ یا یہ کہ جب شیطان بند ہوگیا تو اس مہینہ میں گناہ کیسے ہو تے ہیں ؟‘‘ ( مرأۃ شرح مشکوٰۃ، جلد سوم کتاب الصوم، فضل اول)
رمضان پاک کا کیسا مبارک اور مقدس مہینہ ہے کہ اس کی آمد پر آسمان اور رحمت اور جنت کے دروازے اُمت مصطفیٰ ﷺ پر کھل جاتے ہیں اور دوزخ و جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ مزید یہ کہ شیطان، دشمنِ انسان قید کیا جاتا ہے، تاکہ وہ بندگانِ خدا کو نیک عمل کرنے سے روک نہ سکے، اور وہ ہمہ تن مصروف ہوجائیں۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ رمضان پاک میں گناہوں کا زور شور کم ہو جاتا ہے۔
حالاں کہ رمضان مبارک میں رحمت کا نزول اور عبادت کی کثرت کا تقاضا یہ تھا کہ شیطان اہل ایمان کو بہکانے میں انتہائی کوشش کرتا اور معاصی کی کثرت ہوجاتی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان مبارک میں گناہوں میں مجموعی حیثیت سے ضرور کمی ہوجاتی ہے۔ جس طرح بعض جگہیں ایسی مبارک ہوتی ہیں جس میں عمل خیر کا اجر و ثواب بڑ ھ جاتا ہے۔ ایسے ہی بعض اوقات ایسے مبارک ہوتے ہیں جس میں اعمال خیر کا ثواب بڑھ جاتاہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ لیلۃ القدر ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے، ایسے ہی ماہِ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس کے متعلق حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا اس میں نفلی عبادت فرض کا درجہ رکھتی ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ہوتا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’یہ ہم دردی کا مہینہ ہے۔‘‘ اور آپؐ نے فرمایا: ’’اس ماہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ )
قیامت میں ماہِ رمضان، روزے داروں کی شفاعت کرے گا۔
’’آسمان سے رمضان کی ہر رات کو ایک منادی والا طلوعِ تک یہ ندا کرتا ہے، اے خیر کے طلب گار! اہتمام کر اور خوش ہو اور برائی کے چاہنے والے، رک جا اور عبرت حاصل کر، کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اس کی بخشش کی جائے، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے۔ کیا کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے۔ کیا کوئی سوالی ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے ۔‘‘
عمدۃ القاری شرح بخاری میں حضرت سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت مذکور ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! اﷲ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کے روزے فرض فرمائے اور میں نے اس کا قیام مسنون فرمایا۔ پس جس نے ایمان اور احتساب (ثواب کے لیے) کے ساتھ روزے رکھے اور اس کا قیام کیا۔ تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا۔ جس طرح اس دن پاک تھا، جس دن وہ اپنی والدہ کے ہاں پیدا ہوا تھا۔‘‘
روزے کی حالت میں آدمی ہاتھ پاؤں کو کسی بھی بُرے کام کے لیے حرکت نہ دے، گالی، گلوچ، غیبت جیسی خرافات زبان پر نہ لائے۔ اس کی آنکھ بھی غیر شرعی کام کی طرف نہ اٹھے۔ بل کہ انسان تقویٰ کا عملی نمونہ بن جائے۔ اگر رمضان المبارک کے روزے ان شرعی قیود و شرائط کو مدنظر رکھ کر پورے کیے جائیں تو اختتام رمضان پر تقویٰ و پرہیز گاری کا پیدا ہوجانا لازمی امر ہے۔