روزہ اﷲ رب العزت کے لیے ہے اور وہی اس کا اجر دے گا۔ روزے کو عربی میں صوم کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنیٰ رک جانے کے ہیں۔
شرعی اصطلاح میں یہ اﷲ تعالیٰ کی ایک ایسی منفرد عبادت ہے جس میں ایک مسلمان اﷲ تعالیٰ کے حکم سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک تمام مفطرات سے رُکا رہتا ہے۔
مفطرات، روزہ توڑنے والی چیزیں کو کہتے ہیں جیسے کھانا، پینا، شوہر و بیوی کی ملاقات وغیرہ۔ اگرچہ یہ تمام چیزیں عام زندگی میں حلال ہیں، مگر روزے کی حالت میں یہ حرام ہوجاتی ہیں اور روزہ ان اعمال کی وجہ سے فاسد ہوجاتا ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے اسی کے حکم کے مطابق طلوع فجر سے غروب آفتاب تک ان اعمال سے بچنے کا نام روزہ ہے۔
روزے کی اس تعریف اور عمل سے ہی روزے کا مقصد واضح ہو جاتا ہے جو اﷲ رب العالمین نے قرآن حکیم میں روزے کا حکم دیتے ہوئے بیان فرمایا ہے، مفہوم:
’’مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیز گار بنو۔‘‘ (سورۃ البقرہ)
اس آیۂ مبارکہ کے مفہوم سے صاف واضح ہورہا ہے کہ روزہ رکھنے کا مقصد تقوے کا حصول ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہے، اﷲ کا ڈر اپنے دل میں بسانا، یعنی کسی بھی کام کو کرنے سے قبل انسان کے دل میں یہ خیال شدت کے ساتھ پیدا ہوجائے کہ میں جو کام کرنے جارہا ہوں وہ جائز بھی ہے یا نہیں؟ حلال ہے یا حرام ہے؟ ایسا کرنے سے اﷲ کی ناراضی کا اندیشہ تو نہیں؟
روزے سے تقویٰ کیسے حاصل ہوتا ہے؟
جب ایک مسلمان روزے کی حالت میں اپنے ہی گھر کی چار دیواری میں قید ہوتا ہے جہاں اسے کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اس کا مواخذہ کرنے والا ہوتا ہے، اب نہ وہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور نہ ہی دیگر جسمانی خواہشات پوری کرتا ہے۔
وہ ایسا کیوں نہیں کرتا ؟
محض اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے روزے کی حالت میں اسے ان امور سے روک دیا ہے اور وہ بھی پورے ایک مہینے کے لیے۔ اس ایک مہینے کی تربیت سے مومنوں کے دلوں پر فطری اثرات مرتب ہوتے ہیں بہ شرط یہ کہ انسان خلوص دل اور شعور سے کوشش کرے۔ اس کے بعد اس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کا خوف جم جاتا ہے اور یہ بات اس کے ذہن پر نقش ہوجاتی ہے کہ جب روزے کی حالت میں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے حلال چیزوں سے بھی اجتناب کرتا رہا ہوں تو جو چیزیں اﷲ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے حرام قرار دی ہیں، ان کا ارتکاب میرے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ یا اگر مجھے اﷲ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے تو میں اس خالق کائنات کی نافرمانی کیوں کروں؟
چناں چہ یہ ماہ مبارک صرف روزہ رکھنے ہی کی ترغیب نہیں دیتا، بل کہ انسانی کردار کو نکھارنے کے لیے بعض کاموں سے انکار کروا کے اعمال صالحہ کی جانب راغب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا تو اﷲ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص کھانا پینا چھوڑ کر بھوکا رہے، یعنی اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس کے روزے کی کوئی اہمیت یا قدر نہیں۔
روزہ صرف کھانا، پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بل کہ روزہ تو ہر اس غلط سے روکتا ہے جو عام دنوں میں بھی جائز نہیں۔ اس لیے اگر کوئی شخص کسی روزہ دار کے ساتھ جھگڑا اور فساد کرنے کی کوشش کرے تو اس سے بڑی نرمی سے کہہ دیا جائے کہ بھئی! مجھے معاف کرو، میں روزے سے ہوں۔
اکثر نوجوان اپنی کم علمی کی وجہ سے بہت سے ایسے کاموں میں مبتلا نظر آتے ہیں جو روزہ دار کے لیے جائز نہیں، مثال کے طور پر وہ اپنا وقت گزارنے کے لیے ریڈیو پر گانے سنتے ہیں، ٹی وی پر لغو پروگرام دیکھتے ہیں، بے ہودہ فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں، یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ روزے کی حالت میں تو ہماری اسلامی و اخلاقی تربیت ہوتی ہے، مگر ہم اسے حاصل کرنے کے بہ جائے دوست احباب کے ساتھ تاش یا شطرنج کھیل کر وقت گزارتے ہیں۔ حالت روزہ میں چغل خور ی کرنا، جھوٹ بولنا اور مذاق کے نام پر بے ہودہ حرکات کرنا ناجائز ہے اور یہ ساری بُری باتیں تو ویسے بھی قابل مذمت اور قابل وعید ہیں۔ ان سب کی اسلام میں قطعی گنجائش نہیں ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر روزے کی حالت میں بھی طنز کرتے ہیں، تاکہ روزہ دار کو جوش آجائے اور وہ کسی طرح غیر اخلاقی عمل کا مرتکب ہوجائے۔ یہی وقت روزے دار کے لیے ہوش کا ہے۔ ایسے موقع پر درگزر کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اسلام نے روزے کی حالت میں قوت برداشت سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔
روزہ دار کے لیے ایک اہم نکتے کی بات یہ بھی ہے کہ جہاں اسے جھوٹ بولنے سے منع کیا جا رہا ہے، وہاں یہ بھی تعلیم دی جارہی ہے کہ دھوکے اور فریب سے گریز کرے۔ مثلاً اگر وہ تاجر ہے تو جھوٹ بول کر اپنی اشیاء فروخت نہ کرے، اپنے ناقص مال کو چھپا کر نہ بیچے، بل کہ اس شے کا نقص گاہک پر واضح کردے۔ کاروبار میں اس قسم کی حرکات ویسے تو پورے سال ممنوع ہیں، مگر رمضان المبارک میں اور روزے کی حالت میں اس قسم کی حرکات کا ارتکاب دین سے غفلت اور کھلی بغاوت ہی ہے۔ ایسے لوگوں کی بابت رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم:
’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزہ رکھنے سے سوائے پیاس اور بھوک کے اور کچھ نہیں ملتا، اور کتنے ہی شب بیدار ایسے ہیں جنہیں بے خوابی کے سوا شب بیداری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
سال بھر کے مہینوں میں ماہ رمضان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے تین عشروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔ اس مہینے کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر ایک نیکی کا اجر دس سے ستّر گنا اور ایک مقام پر تو سات سو گنا بتایا گیا ہے۔
جنت کے سات دروازوں میں سے ہر عمل کرنے والا گزارا جائے گا لیکن روزہ داروں کے لیے ایک مخصوص دروازہ رکھا گیا ہے، جس کا نام باب الریان ہے، اس میں سے صرف روزہ دار گزریں گے۔ اس ماہ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
یہ مہینہ غریبوں اور مسکینوں سے ہم دردی اور غم گساری کا ہے۔ اس میں اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں اور برکتیں بارش کی طرح برستی ہیں۔
آج اس ماہ مقدس کا پہلا دن ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کا شایان شان استقبال اس انداز سے کریں کہ اس مہینے میں اپنے معمولات سے ہٹ کر زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہیں اور اپنی آخرت کی فکر کریں۔ آج ہی سے تمام برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے نیک اعمال کی جانب متوجہ ہوکر دنیا و آخرت کی کام یابی حاصل کریں۔