ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی اپنے تین روزہ دورے کے اختتام پر بھی وہ ایک بات نہیں کر سکے جو متوقع تھی۔ پاکستان پہنچنے کے بعد انہوں نے اعلی حکومتی عہدیداروں سے متعدد ملاقاتیں کیں جن میں مختلف شعبوں میں تعاون جیسے موضوعات اور تجارت کے فروغ سے متعلق معاہدوں پر بات چیت بھی ہوئی، سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات، دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کے حجم میں اضافے، نئے اقتصادی زونز قائم کرنے سمیت آٹھ مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے، لیکن پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر کوئی گفتگو یا خبر سامنے نہیں آئی۔
توقع کی جا رہی تھی کہ اس دورے کے موقع پر پاکستان کے توانائی بحران کو حل کرنے کے لیے اہم سمجھے جانے والے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے مستقبل سے متعلق معاملات بھی زیر غور آئیں گے، مگر ایرانی صدر کی جانب سے کی جانے والے اہم ملاقاتوں کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس اور سرکاری پریس ریلیز میں اس اہم منصوبے کا کوئی ذکر نہیں تھا، یہاں تک کہ کسی وزیر یا مشیر نے بھی اس بارے میں کوئی بیان نہیں دیا۔
جس کے بعد چہ مگوئیاں شروع ہوئیں کہ اس خاموشی کی وجہ کیا ہے؟ کیا پاکستان مبینہ ممکنہ امریکی دباؤ میں اس پر منصوبے پر بات کرنے سے گریزاں ہے یا یہ دونوں ممالک کا ایک سوچا سمجھا اقدام ہے؟ اور اگر اس اہم منصوبے پر ہی بات نہیں ہو رہی تو دونوں ممالک کو ایرانی صدر کے اس دورہ پاکستان سے کیا فوائد حاصل ہوں گے؟
اس منصوبے پر تاخیر نے پاکستان کو پہلے ہی مشکل میں ڈال رکھا ہے، کیونکہ ایک طرف اپنے حصے پر پائپ لائن بچھانے کا کام نہ کرنے پر ایران کی جانب سے عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری صورت میں امریکہ کی جانب سے پہلے سے کمزور پاکستانی معیشت پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
عالمی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں دونوں ممالک کی جانب سے ایران، پاکستان گیس لائن منصوبے کا تذکرہ نہ کرنا عقلمندانہ اقدام ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر امریکی پابندیوں کا دباؤ موجود ہے، لیکن میرے خیال میں یہ دونوں ممالک کا دانستہ فیصلہ ہے کہ اس دورے کے دوران اس معاملے پر خاموشی اختیار کی جائے۔
ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق دونوں ممالک میں کچھ اہم مسائل ہیں جو ابھی حل طلب ہیں، پاکستان کو اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے پیسے درکار ہیں جبکہ گوادر میں ابھی تک اس پائپ لائن بچھانے سے متعلق زمین کی الاٹمنٹ نہیں ہوئی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا خدشہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دوسری جانب ایران کی طرف سے اس منصوبے کے تحت گیس کی قیمت کے تعین کا مسئلہ ہے۔ اب تک ایران نے اس معاملے میں تاخیر کے باوجود خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بروقت تعیمر نہ کرنے پر پاکستان پر جرمانہ عائد کرنے کی کارروائی کا آغاز نہیں کیا ہے۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ اس معاملے پر خاموشی کی وجہ دونوں ممالک کے ذمہ دار حکام ہی بہتر بتا سکتے ہیں تاہم بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ممالک اس منصوبے سے متعلق معاملات کو موجودہ صورتحال میں عوامی سطح پر نہیں لانا چاہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں یہ دونوں ممالک کا سوچا سمجھا اقدام ہے کہ اس منصوبے پر قبل از وقت کوئی بات نہ کی جائے۔