سویڈن ایک ایسا ملک ہے جس کی عالمی شہرت ٹیکس کی زیادہ شرح اور معاشرتی برابری کے تصور سے جڑی ہے لیکن اب یہ ملک یورپ میں امیر ترین لوگوں کی آماجگاہ بن رہا ہے اگرچہ اس وقت سویڈن میں دائیں بازو کی اتحادی حکومت برسراقتدار ہے لیکن گذشتہ صدی کے دوران زیادہ وقت ملک پر سوشلسٹ ڈیموکریٹ حکومت کا راج رہا، جن کا منشور ملک کو ایک مضبوط فلاحی ریاست بنانے کا تھا جس کے لیے ٹیکسوں کی مدد سے برابری کے اصول کے تحت معیشت کو ترقی دینا مقصود تھا۔
ویکانز افریئر نامی کاروباری میگزین کے مطابق 1996 میں ایک بلین کرونور یا موجودہ ایکسچینج ریٹ کے حساب سے 91 ملین امریکی ڈالر مالیت سے زیادہ دولت رکھنے والے افراد کی تعداد صرف 28 تھی جن میں سے اکثریت کا تعلق ایسے گھرانوں سے تھا جو نسل در نسل دولت مند تھے۔
ایفٹون بلیڈت نامی اخبار کے ایک ایسے ہی تجزیے کے مطابق 2021 تک یہ تعداد 542 ہو چکی تھی اور یہ لوگ ملکی جی ڈی پی کے 70 فیصد کے برابر دولت رکھتے تھے۔
یوں صرف ایک کروڑ افراد کی آبادی والے ملک میں دنیا میں آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ ارب پتی افراد ہیں۔ فوربز میگزین نے 2024 میں امرا کی فہرست میں 43 سویڈش شہریوں کا نام شامل کیا جو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی دولت رکھتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ہر 10 لاکھ میں سے چار لوگ ارب پتی ہیں۔ امریکہ میں یہ تناسب 10 لاکھ میں سے دو لوگوں کا ہے جہاں مجموعی طور پر 813 ارب پتی ہیں جو دنیا میں کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ تاہم امریکہ کی آبادی سویڈن سے کہیں زیادہ ہے۔
سویڈن میں انتہائی امیر بن جانے والے افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ مقامی طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی ترقی ہے۔ سویڈن کی شہرت یورپ کی ’سیلیکون وادی‘ کے طور پر قائم ہو چکی ہے جہاں دو دہائیوں کے دوران ایک ارب ڈالر مالیت والی 40 کمپنیاں بنیں۔
سکائپ اور سپاٹیفائی کے عاوہ گیمنگ کمپنیاں کنگ اور موجانگ بھی سویڈن میں ہی قائم ہوئیں۔ حالیہ دور میں عالمی سطح پر کامیاب ہونے والوں میں مالیاتی کمپنی ٹنک بھی شامل ہے جسے کورونا وبا کے دوران ویزا کمپنی نے دو ارب ڈالر میں خریدا۔
سنہ 2010 سے چند سال پہلے تک سویڈن میں شرح سود کافی کم تھی جس کی وجہ سے بینکوں سے ادھار رقم حاصل کرنا آسان تھا۔ اسی لیے اکثر شہریوں نے پراپرٹی میں سرمایہ کاری کی یا پھر نئی کمپنیوں میں پیسہ لگایا اور نتیجتا کئی نئی کمپنیوں کی قدروقیمت میں اضافہ ہوا۔
سویڈن میں زیادہ کمانے والوں کی ذاتی کمائی پر 50 فیصد سے زیادہ ٹیکس لگتا ہے، جو یورپ میں سب سے زیادہ ہے، تاہم آندریاس کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند حکومتوں نے چند ٹیکسوں کو اس طریقے سے مرتب کیا کہ امیر لوگوں کو اس کا فائدہ ہوا۔
سویڈن میں دولت اور وراثت کے ٹیکسوں کو 2000 کی دہائی میں ختم کر دیا تھا جبکہ سٹاک یا کمپنی کے شیئر ہولڈرز کو حصہ دینے پر عائد ٹیکس کی شرح تنخواہ سے کہیں کم ہے۔ دوسری جانب کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں بھی 1990 سے اب تک 10 فیصد تک کمی ہو چکی ہے جو یورپی اوسط سے نیچے ہے۔
سویڈن کی دولت کا بڑا حصہ سفید فام مردوں تک محدود ہے اگرچہ کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تارکین وطن پر مشتمل ہے۔