جون 2022 میں، پاکستان نے اپنی تاریخ کے بدترین سیلابوں کا سامنا کیا، جس سے 33 ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے اور ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا۔ یہ تباہی مون سون کی شدید بارشوں سے شروع ہوئی جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ملک کے شمال میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے بڑھ گئی تھی۔
سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی، 1500 سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ سیلاب نے سڑکوں، پُلوں اور گھروں سمیت بنیادی ڈھانچے کو بھی خاصا نقصان پہنچایا، جس سے بہت سے لوگوں کو خوراک، پانی اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات میسر نہ ہو سکیں۔
آج کل “موسمیاتی تبدیلی” دنیا بھر میں اولین موضوع بنا ہوا ہے جس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہر شعبے کے لوگ کوشاں ہیں۔ موسمیاتی تغیر دراصل درجۂ حرارت اور موسم کے پیٹرن میں آنے والی طویل مدتی تبدیلیاں ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کی بے قابو صنعتی ترقی کا خمیازہ اب دنیا بھگت رہی ہے اور دیکھا جائے تو اس بگاڑ میں پاکستان کا ایک فی صد سے بھی کم ہاتھ ہے۔ پاکستان کتنی ہی کوشش کر لے وہ اتنے بڑے پیمانے پر انتظامات نہیں کر سکتا۔ انتظامات اور اقدامات کے لیے پاکستان جیسے ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی مدد کی ضرورت ہے۔ اب یہ مسائل ایک انتہائی مشکل چیلینج کے طور پر پاکستان کے سامنے ہیں۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان پچھلے کئی سالوں سے تباہ کن سیلابوں کا سامنا کر رہا ہے۔ مون سون کی شدید بارشوں کے بارے میں ماہرین موسمیات ہر سال خبردار کرتے ہیں، لیکن انتظامات کے فقدان کی وجہ سے ملک کے وسیع تر علاقے زیرآب آجاتے ہیں اور کئی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ مسائل میں گھرے پاکستانی عوام کو سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ گلوبل وارمنگ کا بھی سامنا ہے۔ آخر ایسی کون سی وجوہات ہیں جو گلوبل وارمنگ یا ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ بن رہی ہیں؟ آئیے ان وجوہات اور ان کے حل کے بارے میں جانیں۔
پاکستان اپنی گرم آب و ہوا کی وجہ سے موسمیاتی تغیر کا خاص طور پر نشانہ بنا ہوا ہے۔ یہ تو ایک قدرتی وجہ ہے لیکن کچھ انسانی سرگرمیاں ایسی ہیں جو اس مسئلے کو مزید بڑھا رہی ہیں، جیسے:
بجلی یا توانائی پیدا کرنے کے لیے فوسل فیول کا جلانا، انڈسٹریز اور ٹرانسپورٹ کا دھواں، جنگلات کی کٹائی اور تعمیرات کا جنگل وغیرہ۔ یہ سرگرمیاں ماحول میں گرین ہاؤس گیسز خارج کرتی ہیں جس سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز زمین کو کمبل کی طرح ڈھانپ لیتی ہیں جو زمین کی گرمی کو ماحول سے باہر نکلنے سے روک کر درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
پاکستان میں یہ موسمیاتی تبدیلی شمال میں تیزی سے برفانی تودوں کے پگھلنے کا سبب بن رہی ہے جس کی وجہ سے دریائے سندھ کو سیلابی ریلے کا سامنا ہے، جب کہ بنجر علاقوں میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی میں اضافہ ہورہا ہے۔ درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پے در پر گرمی کی لہریں بڑھ رہی ہیں جس سے سانس ، قلبی امراض اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کے ان مسائل کا حل محض پالیسی بنانا نہیں ہے بلکہ اسے حل کرنے کے لیے کچھ موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا حل ایک چیلنجہے جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
پنجاب کے سرسبز میدانوں سے لے کر سندھ اور بلوچستان کے خشک ریگستانوں تک، پاکستان کے تمام خطوں کے موسم تیزی سے واضح طور پر تبدیل ہو رہے ہیں لیکن ایک عام آدمی پانی کی قلت، فضائی آلودگی، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل میں ایسا گھرا ہوا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں ہے کہ اگر ہم موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کارروائی نہیں کریں گے تو کیا نتیجہ ہوگا۔ ان حالات سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر میں اقدامات ہورہے ہیں اور ہمیں بھی لوگوں میں آگاہی دینی چاہیے تاکہ اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر اقدامات کیے جائیں۔
حکومت اس سلسلے میں کیا کاروائیاں کر سکتی ہے:
٭ حکومت کلین انرجی، نیوکلیرانرجی، ہائیڈرو الیکٹرک پاور، شمسی توانائی، پائے دار زراعت اور ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے والی پالیسیوں پر عمل درآمد کرکے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنائیں۔
٭ آلودگی کو کم کرنے کے لیے کچرے کا بہتر انتظام کریں۔
٭ ڈیزل پر پابندی لگائیں، ڈیزل گاڑیوں کے بجائے شمسی اور ہائیڈرو پاور پروڈکٹ کو ترجیح دیں۔
٭ ہر علاقے کی ضرورت اور مسائل کو سمجھتے ہوئے منصوبہ بندی کریں۔
٭ آفات کے پیش آنے سے پہلے ہی ان کے لیے تیاری کریں تاکہ کم سے کم نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔
٭ موسمیاتی تبدیلی کو حکومت کے تمام اداروں کے لیے اولین تشویش بنائیں۔
ایسے عمل جو انفرادی طور پر لوگ کر سکتے ہیں:
٭ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں اپنی کمیونٹی میں بات کریں اور مل کر کارروائی کریں۔
٭ آب و ہوا کے مسائل پر کام کرنے والے مقامی گروہوں کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کریں۔
٭ کھانا ضائع نہ کریں، اسے ضرورت مندوں کے ساتھ بانٹیں، اور میتھین کے اخراج کو بچائیں۔
٭ توانائی اور پیسہ بچانے کے لیے لائٹس کا بے جا استعمال کم کریں۔
٭ کم سے کم پیکیجنگ کی مصنوعات کا انتخاب کرکے کچرے کو کم کریں۔
٭ اشیاء کو reuse ہونے کے قابل بنائیں۔
٭ کاغذ، پلاسٹک، شیشہ اور دھات جیسے مواد کو نئی زندگی دینے کے لیے ری سائیکل کریں۔ ری سائیکل شدہ مصنوعات استعمال کریں۔
دیگر ممالک اس سلسلے میں جو کارروائی کر رہے ہیں ان سے سیکھیں اور عمل کریں۔ بنگلادیش میں موسمیاتی تبدیلی کی حکمت عملی اور ایکشن پلان پر عمل کیا جا رہا ہے جس کے تحت ماحولیاتی تبدیلی کو ہر ترقیاتی منصوبہ بندی میں مرکزی اہمیت دی جائیگی۔ مراکش نے لوگوں کو توانائی کے صاف ذرائع استعمال کرنے کی ترغیب دینے کے لیے ڈیزل اور گیس پر تمام سبسڈی ختم کردی ہے، ہندوستان 2030 تک renewables سے اپنی 40 فی صد بجلی پیدا کرنے کا ہدف رکھتا ہے اور سویڈن نے اپنے شہروں میں ‘ایکو کوارٹرز’ بنائے ہیں تاکہ پرانے صنعتی علاقوں کو ماحول دوست گھروں میں تبدیل کردیا جائے۔