صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے حال ہی میں ہتک عزت کا ایک نیا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت حکومت ایسے خصوصی ٹریبیونل بنا پائے گی جو چھ ماہ کے اندر اندر ایسے افراد کو سزا دیں گے جو ’فیک نیوز بنانے اور پھیلانے میں ملوث ہوں گے۔‘ یہ سزا 30 لاکھ روپے تک ہرجانے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ اور ہرجانے کی یہ سزا ٹریبیونل ٹرائل شروع ہونے سے قبل ہی ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر عبوری حکم نامے میں سنا سکتا ہے۔ ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہونے کی صورت میں عبوری طور پر لی گئی ہرجانے کی رقم ہرجانے کی حتمی رقم میں شامل کر لی جائے گی۔ ہرجانے اور قانونی کارروائی کے علاوہ یہ ٹریبیونل ایسے شخص کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم جس کو استعمال کرتے ہوئے مبینہ ہتکِ عزت کی گئی ہو، اس کو بند کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ ہتکِ عزت یا ڈیفیمیشن ایکٹ 2024 کے تحت ان ہتک عزت ٹریبیونلز کو انتہائی بااختیار بنایا گیا ہے جن کی کارروائی کو روکنے کے لیے کوئی عدالت حکمِ امتناع جاری نہیں کر پائے گی۔ پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے علاوہ صحافتی تنظیموں نے اس قانون کے منظور کیے جانے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’یہ قانون پاکستان میں آزادی اظہارِ رائے کے آئینی حق کے خلاف ہے اور اس کو لوگوں کی آواز بند کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘ پنجاب اسمبلی میں موجود صحافیوں نے بل کے منظور کیے جانے کے موقع پر پنجاب اسمبلی سے بھی احتجاج کرتے ہوئے واک آوٹ کیا تھا۔ تاہم پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ ’اس قانون کا مقصد فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔‘ پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود ہتکِ عزت قانون 2024 کے مسودے کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جس کو لگے کہ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے وہ سول قوانین کے تحت مبینہ ہتک عزت کرنے والے کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے اسے یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی کہ اس کی ساکھ کو حقیقی طور پر کتنا نقصان ہوا ہے۔ مسودے کے مطابق اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آئے گا ’جو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے مقصد سے تصاویر، آوازیں، اشارے، علامات یا تحریریں نشر کرے گا۔‘ ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپلیکیشنز میں فیس بک، ایکس یا ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں۔ پنجاب میں منظور کیے جانے والے نئے قانون کے مطابق ہتک عزت سے مراد ’غلط یا جھوٹ پر مبنی بیان کی اشاعت، نشریات اور پھیلاؤ ہے جس سے کسی شخص کو لگے کہ اس کی ساکھ مجروح ہوئی ہے یا اسے دوسروں کی نظروں میں گرایا گیا ہے یا اسے غیر منصفانہ تنقید اور نفرت کا نشانہ بننا پڑا ہے۔‘ قانون کے مطابق ’ہر ایسا بیان ہتکِ عزت کے زمرے میں آتا ہے چاہے اس کا اظہار زبانی کلامی کیا گیا ہو یا پھر تحریری اور تصویری شکل میں کیا گیا ہو۔‘ ’چاہے اس کے لیے عمومی ذرائع استعمال کیے گئے ہوں یا پھر اس کے اظہار کے لیے الیکٹرانک اور دیگر جدید میڈیم، ذرائع یا آلات یا پھر سوشل میڈیا، کوئی آن لائن یا سوشل میڈیا ویب سائٹ، ایپلیکیشن یا پلیٹ فارم استعمال کے گئے ہوں۔‘ قانون کے مطابق اس میں وہ بیانات یا اظہار بھِی شامل ہو گا جو کسی مخصوص جنس سے تعلق رکھنے والے افراد یا اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کیا گیا ہو۔ ہتک عزت قانون کے مطابق حکومت اس قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے جتنے ٹریبیونل ضروری سمجھے قائم کر سکتی ہے اور اس کے ممبران مقرر کر سکتی ہے۔ ٹریبیونل کا ممبر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت سے مقرر کیا جائے گا۔ جہاں ممبر عدلیہ سے ہو گا وہاں چیف جسٹس تین نام حکومت کو بھجوائیں گے جن میں سے وہ ایک کو ممبر مقرر کرے گی اور جہاں ممکنہ ممبر کا تعلق وکلا برادری سے ہو گا وہاں حکومت چیف جسٹس کو تین نام تجویز کرے گی۔ اگر وہ کسی بھی نام پر اتفاق نہیں کرتے تو چیف جسٹس وہ نام حکومت کو واپس بھجوائیں گے جو ایک نئی لسٹ بھیجے گی۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک ایک نام پر اتفاق نہیں ہو جاتا۔ حکومت ٹریبیونل کے دائرہ کار کا تعین کرے گی۔ ہتک عزت ٹریبیونل چھ ماہ کے اندر شکایت پر فیصلہ دینے کا پابند ہو گا۔ کوئی بھی شخص مبینہ ہتک عزت کے واقعے کے 60 دن کے اندر ٹریبیونل میں شکایت جمع کروا سکتا ہے۔ درخواست گزار کو ہتکِ عزت کے دعوے کو حقائق کے ساتھ بیان کرنا ہو گا اور ساتھ ہی دو گواہان کا بیانِ حلفی بھی جمع کروانا ہو گا۔ درخواست میں اس بیان کو واضح طور پر بتانا ہو گا جس کی وجہ سے اس کو لگتا ہے کہ اس کی ساکھ مجروح ہوئی اور وہ کتنا ہرجانہ لینا چاہتا ہے۔ ٹریبیونل سمن کے ذریعے اس شخص کو طلب کرے گا جس کے خلاف الزام عائد کیا گیا ہے۔ اپنا دفاع کرنے کے لیے وہ شخص پہلی پیشی کے 30 دن کے اندر ٹریبیونل سے اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنے کی اجازت لے گا۔ ٹریبیونل 60 دن کے اندر اندر درخواست پر فیصہ کرنے کا پابند ہو گا۔ ہتکِ عزت کے قانون کے مطابق اگر ہتک عزت کی درخواست کسی ایسے شخص کے خلاف ہے جو کسی آئینی عہدے پر فائز ہے تو اس کے خلاف کارروائی ٹریبیونل نہیں کرے گا بلکہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک سنگل ممبر خصوصی بنچ کرے گا۔ آئینی عہدے کے حامل افراد میں صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلی، گورنر، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز اور چیف جسٹسز، پاکستانی افواج کے سربراہان وغیرہ شامل ہیں۔ قانون کے مطابق آئینی عہدوں پر فائز افراد کے خلاف درخواست پر کارروائی لاہور ہائی کورٹ کا سنگل ممبر بینچ کرتا رہے گا جس کی تشکیل لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کریں گے۔ تاہم اس کی کارروائی کے لیے وہی اصول اپنائے جائیں گے جو اس قانون کے تحت باقی ٹریبیونل کر رہے ہوں گے۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قانون کا مواد اور متن کئی حوالوں سے پریشان کن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون میں ہتکِ عزت کے دعوؤں کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک متوازی ڈھانچہ تجویز کیا گیا ہے۔ ’ایچ آر سی پی متوازی عدالتی ڈھانچوں کو اس بات پر مسترد کرتا رہا ہے کہ وہ بنیادی حقوق اور منصفانہ عدالتی کارروائیوں کے عالمی طور پر تسلیم شدہ اصولوں کے منافی ہیں۔‘ قانون کے مسودے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن کا کہنا تھا کے قانون میں ٹریبیونل کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر بغیر ٹرائل کے 30 لاکھ روپے ہرجانے کا عبوری حکم سنا سکتا ہے۔ ’یہ اظہارِ رائے اور اختلافِ رائے کی آزادی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ غالب امکان یہ ہے کہ ایسے احکامات معین طریقہ کار کی پیروی اور منصفانہ ٹرائل کو یقنی بنائے بغیر جاری کیے جائیں گے۔‘ ایچ آر سی پی نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یہ بل عجلت میں پیش کیا گیا ہے اور اس سے قبل سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل اور مرکزی میڈیا سے مشاورت کے لیے مناسب وقت نہیں رکھا گیا۔ لاہور میں صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کے ساتھ مشاورت کے لیے مناسب وقت نہیں دیا اور اس کے بغیر ہی قانون پاس کر دیا گیا ہے۔ اس قانون کے منظور کیے جانے بعد اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے والے صحافیوں نے اسمبلی کی سیڑھیوں پر قانون کے خلاف احتجاج کیا اور نعرے لگائے۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے اس موقع پر صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے دو گھنٹے سے زیادہ وقت تک مشاورت کی تاہم حکومت نے ان کی اس تجویز کو نہیں مانا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اس قانون کی منظوری کو ایک ہفتہ کے لیے موخر کر دیا جائے۔ ’اس کا مقصد یہ تھا کہ تمام سٹیک ہولڈرز اس پر مشاورت کر لیں اور اس کے بعد اس کو اسمبلی میں پیش کیا جائے۔‘ پنجاب کی وزیراعلی مریم نواز کے حوالے سے ارشد انصاری نے کہا کہ جب پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں ترامیم کر رہی تھی تو مریم نواز احتجاج کرنے والے صحافیوں کے اجتجاج میں شامل ہوئی تھیں۔ ’لیکن اب ان کی اپنی جماعت کی حکومت مرکز اور پنجاب میں ایسے قوانین لا رہی ہے جن کا مقصد میڈیا کی زبان بندی کرنا ہے۔‘ صوبہ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ جو شخص اس وقت پاکستان میں رہتا ہے اس کو معلوم ہو گا کہ حکومت کو اس وقت یہ قانون لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ایک ایسا ماحول ہے کہ ’کوئی بھی شخص جھوٹ اور پراپیگنڈا کے ذریعے کسی بھی شخص کو بدنام کر سکتا ہے، چور ڈاکو کہہ سکتا ہے، اس کی ساکھ کو مجروح کر سکتا ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہے۔‘ عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں ہتک عزت کے سخت قوانین موجود ہیں اور وہاں کسی کی ہمت نہیں ہوتی کے کسی کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے بھی ہتک عزت کا ایسا قانون لاگو کیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافتی تنظیموں کے خیال میں یہ قانون آزادی اظہار رائے کے منافی ہے، عظمیٰ بخاری نے اس کی تردید کی۔ ’تنقید کرنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں، اعتراض الزام لگانے پر ہے۔ تنقید کرنا آپ کا حق ہے وہ آپ سے کوئی نہیں چھین رہا لیکن آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ آپ بغیر کسی ثبوت کے یوٹیوب اور ٹی وی پر بیٹھ کر کسی پر بھی الزام لگا دیں اور آپ سے کوئی پوچھ گچھ بھی نہ ہو۔‘ ہتک عزت 2024 کے قانون کے مطابق ٹریبیونل مبینہ ہتکِ عزت کرنے والے شخص کو باقاعدہ ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ہی عبوری حکم سناتے ہوئے 30 لاکھ روپے تک ہرجانہ جمع کروانے کا کہہ سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ اظہار رائے کی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے یعنی لوگوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کوئی حکومت مخالف تنقیدی بیان دیں گے تو ان کے خلاف ٹریبیونل کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں انھیں اتنی بڑی رقم جمع کروانی ہو گی۔ اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ یہ شق قانون پر عملدرآمد کروانے سے متعلق ہے۔ ’جنھوں نے جھوٹ بول کر یوٹیوب پر بیٹھ کر ڈالر کمائے ہیں تو اس میں سے کچھ پیسے ٹریبیونل میں جمع کروا دیں، کوئی حرج نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس قسم کے قوانین پر عملدرآمد مشکل ہوتا تھا جس میں عدالتوں سے حکم امتناع بھی آ جاتے تھے اور معاملات کئی کئی برس تک لٹکتے رہتے تھے۔ ان کے خیال میں نئے قانون میں یہ شق ’ڈیٹرنس‘ یا ڈراوے کے لیے رکھی گئی ہے تا کہ قانون پر عملدرآمد کرروایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہتک عزت کے ماضی کے قوانین میں سے پیچیدہ اور متنازعہ تمام شقیں نکال کر اسے محض ایک سادہ سا سول یا دیوانی مقدمہ بنا دیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس قانون میں یہ شق بھی رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص ہتک عزت کا غلط الزام لگاتا ہے اور وہ ثابت ہو جاتا ہے تو اس کو ہرجانے کا 10 گنا ادا کرنا ہو گا۔ یعنی 30 لاکھ کا تین کروڑ ادا کرنا پڑے گا۔ آئینی عہدوں پر فائز افراد کا ٹرائل ٹریبیونل کے بجائے لاہور ہائی کورٹ کے سنگل ممبر بنچ کے ذریعے ہونے کے نقطہ پر بات کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا یہ اس لیے کیا گیا تا کہ یہ اعتراض نہ کیا جا سکے کہ ایسے افراد کے خلاف حکومت کا اپنا مقرر کردہ ٹریبیونل جانب دار ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے یہ بل منظور کرنے سے قبل مشاورت کا عمل شروع کیا تھا جو ٹھیک ٹھاک چلتا ہوا اچانک بگڑ گیا۔ ’کچھ لوگ صرف اس کو غیر معینہ مدت کے لیے لٹکانا چاہتے تھے۔‘ عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ صحافتی تنظیمیں اس بل کے خلاف عدالت میں جانے کا ارادہ رکھتی ہیں تو حکومت اپنے قانون کا دفاع کرے گی۔پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان یعنی ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے ایک بیان میں صوبہ پنجاب میں منظور کیے جانے والے ہتکِ عزت 2024 کے قانون پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔