پاکستانی طلبہ وسطی ایشیا کے اس چھوٹے سے ملک میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کیوں جا رہے ہیں۔
پاکستانی طلبہ کی جانب سے کرغزستان کے میڈیکل کالجز کا انتخاب اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ ’ایک تو پاکستان میں سرکاری میڈیکل کالجز میں میرٹ بہت زیادہ بنتا ہے جبکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں بھی اکثر طلبہ کو یا تو جگہ نہیں ملتی یا ان کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ سال کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا میرٹ 93.6 فیصد پر بند ہوا تھا جبکہ سب سے کم میرٹ 91.2 فیصد ڈی جی خان میڈیکل کالج کا رہا تھا۔
کرغزستان میں میڈیکل کالجز کے انٹری ٹیسٹ نہیں ہوتے، صرف آپ کے ایف ایس سی میں نمبر 60 فیصد سے زیادہ ہونے کی شرط رکھی جاتی ہے۔
کرغزستان میں تعلیم سنہ 2019 تک تو طلبہ کو سستی پڑتی تھی لیکن اب ڈالر کے ریٹ بڑھنے کے بعد یہ یونیورسٹیاں بھی سستی نہیں رہیں اور بیچ میں پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل کی جانب سے متعدد کرغز یونیورسٹیوں کو بلیک لسٹ بھی کیا گیا تھا۔
پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور انھیں پاکستان میں مواقع نہیں ملتے۔ انھیں وہاں کام کرنے کی اجازت اس لیے ہوتی ہے کیونکہ یہ کرغزستان کے لیے غیر ملکی زرِمبادلہ کا ذریعہ ہے۔ ان بچوں کو ڈگریاں مل رہی ہیں۔ نوجوان تو بس یہ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی راستہ ہو کہ انھیں پروفیشنل ایجوکیشن مل جائے۔ یہ پورا بزنس تقریباً 50 سے 100 ملین ڈالرز سالانہ کے لگ بھگ ہے۔
سنہ 2020 کے اواخر میں پاکستان میڈیکل کونسل کی جانب سے کرغزستان کی تمام میڈیکل یونیورسٹیوں کو بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا جس کے بعد کرغز حکومت کے ساتھ مل کر ان یونیورسٹیوں کی اکریڈیٹیشن کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ یہ یونیورسٹیاں ادارے کے وضع کردہ قواعد پر پوری نہیں اترتیں۔
اس وقت پی ایم ڈی سی کی ویب سائٹ کے مطابق صرف نو یونیورسٹیاں گرین لسٹ کی گئی ہیں۔
رواں ماہ پاکستان کے ایوانِ زیریں قومی اسمبلی میں بیرون ملک سے ڈگریاں مکمل کرنے والے ڈاکٹروں کے توثیقی امتحان پر بحث ہوئی تھی۔ اس دوران وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ ’کسی شخص کو ملازمت دینے یا اس کے والدین کا پیسہ ضائع ہونے کے خدشے کی بنا پر کسی کو بھی لوگوں کی صحت سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ایکریڈیٹیشن ہر ملک کا اپنا حق ہے۔ انھوں نے مثال دی کہ ’بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کے پاس کرغزستان کی میڈیکل کی ڈگری تو موجود ہے مگر ان کے پاسپورٹ پر کرغزستان میں قیام کا ثبوت نہیں ہے۔‘
’ان شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ایم ڈی سی نے امتحانی سٹرکچر تبدیل کیا ہے، تعلیمی قابلیت اور استعداد میں فرق ہونے کی وجہ سے ایسے طلبہ کو ڈاکٹر بننے کے لیے باہر جانا پڑتا ہے۔ اگر ہم نے اپنے معیار تعلیم پر کمپرومائز کیا تو یہ پاکستانی عوام پر ظلم ہو گا۔‘
پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کے نگران ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’پی ایم ڈی سی ملک میں طب اور دندان سازی کی تعلیم کا قومی ریگولیٹر ہے۔ ادارے کا بنیادی کام بین الاقوامی ضروریات کی روشنی میں مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے طبی تعلیم میں یکساں معیار کو یقینی بنانا ہے اور اسے مریضوں کی حفاظت کے لیے میڈیکل کی تعلیم کے معیار کو بڑھانے کے لیے ریگولیٹری فریم ورک کی تعمیل کرنا ہے۔ اگر کوئی بھی پاکستانی طالب علم کسی دوسرے ملک سے میڈیکل یا ڈینٹسٹری کی تعلیم حاصل کر کے آتا ہے اور ملک میں پریکٹس کرنے کے لیے پی ایم ڈی سی سے اسے نیشنل رجسٹریشن ایگزیمینشن (این آر ای) کے تحت ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہے اور اس میں 50 فیصد نمبر حاصل کرنا ہوتے ہیں جبکہ اگر کوئی بیرون ملک میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طالب علم کو کسی بھی وجہ سے پاکستان واپس آنا ہو اور یہاں کسی ادارے میں بقیہ تعلیم حاصل کرنا ہو، کسی بھی وجہ سے، تو اس کے لیے اسے نیشنل ایکولینس بورڈ کا امتحان پاس کرنا لازمی ہے۔ بیرون ملک غیر معیاری تعلیم اداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ترجمان پی ایم ڈی سی کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی غیر ملکی میڈیکل اور ڈینٹل کالج کے خلاف کوئی شکایت موصول ہونے پر پی ایم ڈی سی جانچ پڑتال کے بعد ادارے کی حیثیت کا جائزہ لیتا ہے۔ پی ایم ڈی سی وقتاً فوقتاً ایسی شکایات کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور اپنی ویب سائٹ پر موجود اداروں کی فہرست کو اپ ڈیٹ کرتا رہتا ہے تاہم اس ضمن میں یہ آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے کہ طلبہ بیرونِ ملک صرف ان تعلیمی اداروں میں داخلہ لیں جو پی ایم ڈی سی کی ویب سائٹ پر موجود فہرست میں شامل ہوں۔ عام طور پر طلبہ میڈیکل اور ڈینٹل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں 21 ہزار سیٹیں ہیں اور ان کے حصول کے لیے مقابلہ کافی سخت ہوتا ہے۔ بہت سے طلبہ جو مقامی اداروں میں داخلہ حاصل نہیں کر پاتے ہیں وہ بیرون ملک ایسے مواقع تلاش کرتے ہیں جہاں داخلہ زیادہ آسان ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک میں تعلیم کے اخراجات اور فیس کا ایک ڈھانچہ ہے اور طلبہ آزادی، موافقت اور وسیع تر عالمی نظریے کے حصول کے لیے تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے کا بھی انتخاب کرتے ہیں۔