آئرلینڈ اور ناروے نے سرکاری طور پر فلسطین کو بطور ایک آزاد ریاست تسلیم کرلیا ہے،کینیڈا نے غزہ کے فلسطینیوں کے لیے تعداد میں اضافہ کر کے پانچ ہزار فلسطینیوں کو ویزہ دینے کا اعلان کردیا ہے۔
آئر لینڈ کے وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپی یونین اسرائیل کے خلاف پابندیوں پر غورکررہا ہے۔ دوسری جانب نیویارک اور پیرس سمیت دنیا کے مختلف شہروں میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ انروا نے بتایا کہ رفح سے دس لاکھ فلسطینی نقل مکانی کر گئے ہیں۔
ایک تاریخی سیاسی اقدام میں آئرلینڈ، ناروے اور اسپین نے باضابطہ طور پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ قدم اب تک اقوام متحدہ کے 140 سے زائد اراکین لیکن چند مغربی حکومتوں نے اٹھایا ہے۔
درحقیقت بین الاقوامی برادری بھی اسرائیل کو یہ عندیہ دے رہی ہے کہ وہ اب تشدد، قتل و غارت اور تباہی کی پالیسی جاری نہیں رکھ سکتا۔ انسانی حقوق کے کارکن بہت عرصے سے اس بات کی شکایت کر رہے ہیں کہ امریکا کے زیر قیادت طاقتور مغربی ممالک نے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
ان بیانات کی روشنی میں صدر بائیڈن یا برطانوی وزیر اعظم کے بیانات کو پرکھا جائے تو ان کا دوغلا پن اور انسانیت کے جعلی دعوؤں کا پول کھل جاتا ہے۔ جنگ کے خلاف امریکا اور یورپ میں ہونے والے مظاہرے اس کا بین ثبوت ہیں۔
آٹھ ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت اور اس کے مقابلے کے حوالے سے سامنے والے حماس اور غزہ کے لوگوں کے عزم اور استقامت نے یورپ کے بعض ملکوں میں ایک نیا ردعمل پیدا کیا ہے۔
اس ردعمل کے دائرے میں اسرائیل ایک وحشیانہ طاقت بن کر ابھرا ہے اور بعض یورپی ملک محسوس کررہے ہیں کہ دو ریاستی حل کو حقیقت بنائے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ چنانچہ برطانیہ کے دارالعلوم نے فلسطین کے حق میں ایک قرارداد منظورکی تھی اور یورپ کے ایک اہم ملک سویڈن نے فلسطین کو ایک ریاست کی حیثیت سے تسلیم کر لیا تھا۔ غزہ کے لوگوں کی مزاحمت نے امریکی اثرات سے ایک حد تک محفوظ یورپی معاشروں کو فلسطین کے حوالے سے بہت کچھ سوچنے پر مجبورکردیا ہے۔
فلسطین کو تسلیم کرنے کا ایک اور سبب یہ ہے کہ فلسطین کے لوگوں میں مستقبل کے حوالے سے امید پیدا کی جائے اور انھیں بتایا جائے کہ صرف تشدد ان کا مستقبل نہیں بلکہ اس کا متبادل بھی موجود ہے۔ یہ متبادل اور ریاستوں کی متوازی صورت میں موجودگی ہے۔ فلسطین کے سلسلے میں اہل یورپ کا یہ طرز عمل گہرا، ہمہ گیر اور بہت بلند آہنگ نہیں ہے مگر اس کی موجودگی بجائے خود معنی خیز ہے اور اس سے کم از کم اتنا معلوم ہو رہا ہے کہ اسرائیل کی مکمل اندھی حمایت اہل یورپ کے لیے بوجھ بننے لگی ہے۔
یہودی ریاست اسرائیل میں مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں اور صہیونی سیاست کے حامل افراد میں عربوں سے تعلقات کے مسئلے پر سخت نظریاتی اختلافات ہیں۔ مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ جو ناانصافیاں ہو رہی ہیں اور ان پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں وہ قطعی نامناسب ہیں۔
کثیر عرب آبادی کے درمیان رہ کر ان کو اپنا مخالف بنا لینا درست نہیں، ان کا یہ کہنا بھی معقولیت پر مبنی ہے کہ عرب ہمیشہ کمزور اور باہمی اختلافات کا شکار نہیں رہیں گے، اگر وہ متحد اور مضبوط ہوجائیں تو اسرائیل کا کیا حشر ہوگا؟ لیکن صہیونی سیاست کے زیر اثر جن کے پاس فوجی قوت اور حکومت کی طاقت ہے، مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں کی آواز موثر نہیں، اس کے باوجود مذہبی عقائد کے حامل یہودی ( اور اب فوجی جوان بھی ) اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ فلسطینیوں کی تائید میں جو جلوس نکالے جاتے ہیں۔
ان میں یہودی مذہبی رہنما (ربی) بھی شریک ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ صہیونیت نہ صرف اسرائیل کے لیے بلکہ یہودیوں کے لیے بھی خطرناک ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ صہیونی سخت نسل پرست ہیں دنیا کی غیر یہودی آبادی سے انھیں ذرہ برابر بھی ہمدردی نہیں۔ صہیونی لابی یہ جانتی ہے کہ وہ تنہا عربوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور عربوں کے بڑھتے ہوئے جذبات اور عالم اسلام کی صہیونیت سے بڑھتی ہوئی نفرت کی تاب نہیں لاسکتے۔
اس لیے امریکا جیسی سپر پاورکی بھرپور تائید حاصل کرنا ان کے لیے ناگزیر ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی انسانیت دشمن کارروائی کو آٹھواں مہینہ شروع ہو چکا ہے اور اسرائیلی فوج رفح پر حملہ کو توسیع دے رہی ہے۔ رفح میں پناہ لینے والے بارہ تیرہ لاکھ لوگوں میں سے 8 لاکھ کے لگ بھگ ایک بار پھر دربدر ہیں اور پناہ کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور ہیں۔
غزہ کی پٹی پر واقع شہر رفح میں بے گھر فلسطینیوں کے کیمپ پر اسرائیل کے حملے کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن کا موقف بدلتا رہا ہے، لیکن غزہ کے شہر رفح میں بے گھر فلسطینیوں کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری کے بعد امریکی صدر کو سخت موقف اختیار کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ اندرون ملک بائیڈن پر سیاسی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔
اسرائیل کے لیے ان کی حمایت کے خلاف امریکا بھر کی یونیورسٹی کیمپس میں مظاہرے ہو رہے ہیں جب کہ ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں بازو کے بہت سے لوگ بھی ان کے موقف کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اسرائیلی بربریت پر پوری دنیا شدید رنج و غم کی کیفیت میں ہے اور درجنوں امریکی یونیورسٹی کے طالب علم اس جارحیت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ یورپ کے تمام بڑے شہروں میں تسلسل سے جنگ مخالف لوگ امن کی اپیل کرنے اور اسرائیلی مظالم کو مسترد کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں عالمی فوجداری عدالت میں اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے گرفتاری وارنٹ جاری کرنے کے بارے میں پیش رفت پر اسرائیل کی بدحواسی قابل فہم ہے۔
پوری دنیا کے سامنے اس کی جارحیت اور نہتے انسانوں کے خلاف یک طرفہ شدید بمباری، پیش قدمی اور غزہ پر قبضہ کے ہتھکنڈوں سے اسرائیل کے چہرے سے مہذب ملک ہونے کا نقاب اتر چکا ہے۔امریکا تسلسل سے سلامتی کونسل میں اسرائیلی جنگ جوئی کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کرتا آیا ہے۔
امریکی حکومت کی طرف سے غزہ کے شہریوں کی دیکھ بھال اور سلامتی کے نام نہاد دعوؤں سے قطع نظر صدر بائیڈن انتہائی ڈھٹائی سے اسرائیلی جارحیت کو حق دفاع کا نام دے کر اپنے طویل سیاسی کیریئر پر سیاہ دھبے لگانے کا سبب بن رہے ہیں۔ صدارتی انتخاب جیتنے کی دھن میں وہ امریکا کے یہودی ووٹروں اور اسرائیل نواز لابی کو ناراض کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔ اس موقع پر وہ بھول جاتے ہیں کہ امریکا دنیا بھر میں انسانی حقوق کا علمبردار بنتا ہے اور ہر ملک سے معاملات طے کرتے ہوئے انسانی حقوق کی حفاظت کی ضمانت چاہتا ہے لیکن اسرائیل کا ذکر آتے ہی امریکا کے یہ اصول دھڑام سے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
اسرائیل ایک منظم اور جدید ہتھیاروں سے لیس ایک بڑی فوجی طاقت ہے جب کہ وہ اپنے ہی دعوے کے مطابق حماس کا مقابلہ کر رہا ہے۔ حماس ایک چھوٹا سا گروہ ہے جسے کسی قسم کی رسد کی فراہمی کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے جب کہ امریکا اسرائیل کو ہر قسم کی فوجی امداد فراہم کر رہا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے بحیرہ روم میں امریکی بیڑا بھی تعینات کیا گیا ہے۔غزہ میں مہم جوئی کا مقصد حماس کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ وہاں سے فلسطینی باشندوں کا خاتمہ ہے۔
یہ بات عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کے استغاثہ سے بھی ثابت ہو چکی ہے اور اب عالمی کریمنل کورٹ کے پراسیکیوٹر کی درخواست میں بھی یہی واضح کیا گیا ہے۔اسرائیل کا المیہ یہ ہے کہ نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے تو ان کے ماتھے پر لگا ہوا یہ کلنک اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ان کی قیادت میں اسرائیل نے تمام انسانی اصولوں کو پامال کیا۔ بائیڈن اور رشی سونک کے بیانات واضح کرتے ہیں کہ وہ اس کلنک کو ابھی سے دھونے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم نیتن یاہو بدحواس جب کہ انتہا پسند یہودی پریشان ہو رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو اسرائیل بین الاقوامی طور پر تنہا ہوتا جارہا ہے، ان حالات میں اسرائیل کی آسودگی اور تالیف صرف اور صرف ایٹمی ہتھیار کے استعمال میں ہے۔ ایسی غلطی دُنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل دے گی۔ کسی قسم کا ایڈونچر اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہوگا۔
دو انتہائی اہم سمندری گزرگاہیں ’’ آبنائے ہرمز‘‘ اور آبنائے المندب یا باب المندب (جبوتی اور یمن کے درمیان) کے بند ہونے کی صورت میں پوری دنیا معاشی اور تیل کے بحران میں ہوگی۔ فیصلے کی گھڑی پوری دنیا کے سر پر آن کھڑی ہے۔ اسرائیل نے عقل اور سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا ہے، جب کہ اسرائیل کے سر پر اپنی ساکھ بچانے کے لیے جنگی جنون سوار ہے۔ ایسی ہرکوشش میں یقینا اسرائیل اپنا وجود کھو بیٹھے گا، یہ بات نوشتہ دیوار ہے۔