غزہ میں خون بہانے کی پیاس ابھی ختم نہیں ہوئی۔
غزہ کے بعد رفح پر بھی بمباری شروع کردی گئی ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کردیا گیا ہے۔انھوں نے اسرائیلی جارحیت اور غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت پر عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی طاقتیں جنگ بند کرانے کے لیے کردار ادا کریں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے اقوام عالم کو اپنا بھر پور اور فعال کردارکرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے، کیونکہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا موقف واضح اور دوٹوک ہے، مصیبت کی اس گھڑی میں پوری پاکستانی قوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک 36 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔
اس دوران پٹرول بم بھی استعمال کیے گئے جن سے اسرائیلی سفارت خانے کی حدود میں آگ لگ گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی بدترین کارروائیوں کے باعث غزہ کی 85 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے، انھیں غذائی قلت، پانی اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے جب کہ غزہ کا 60 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے جسے دوبارہ تعمیرکرنے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔ انفرا اسٹرکچر کی اِس پیمانے پر تباہی شاید دنیا میں لڑی گئی دو عظیم جنگوں کے دوران بھی کسی ایک علاقے، شہر یا خطے میں دیکھنے میں نہ آئی ہو جو اِس وقت غزہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اسرائیل پر بھی کسی کا اثر نہیں ہو رہا بلکہ وہ تو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو مسل کر آگے بڑھنے پر تُلا ہوا ہے، اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے مفادات کے لیے پوری دنیا کے امن و امان کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی، بحری اور بری حملے جاری ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کی اس چھوٹی سی پٹی میں رہنے والے فلسطینی باشندے کسی کونے میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
اب جنوبی حصے رفح میں پناہ لینے والے لاکھوں فلسطینی باشندوں کے خلاف بھی اسرائیل کے زمینی اور ہوائی حملے جاری ہیں۔ بین الاقوامی برادری کے سخت احتجاج اور مطالبے کے باوجود اسرائیلی ٹینک غزہ کے جنوب میں فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ رفح میں شہری آبادی پرگولہ باری کر رہے ہیں اور جنگی طیارے آسمان سے بم گرا رہے ہیں۔
ہر روز بیسیوں فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 36 ہزار سے زائد ہو چکی ہے جب کہ 80 ہزار سے زائد زخمی ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں فلسطین اور غزہ میں اسرائیل کی بہیمانہ جارحیت کے حوالے سے یکے بعد دیگرے ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی روشنی میں کہا جا رہا ہے کہ قریب آٹھ ماہ سے جاری جنگ کے بعد بھی اسرائیل فلسطینیوں کے عزم اور حوصلے کو ختم نہیں کر سکا بلکہ اپنی بے پناہ طاقت کے باوجود یہ جنگ ہار چکا ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف (انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس) کے ایک حالیہ فیصلے میں اسرائیل کو رفح میں فوری طور پر فوجی آپریشن روکنے اور مصر کے ساتھ سرحد کھولنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی عدالت کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ایک واضح چارج شیٹ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 28 مارچ کے عبوری فیصلے کے بعد سے غزہ میں حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے غزہ کی فلسطینی آبادی کے جان و مال اور عزت کو سخت خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
اس خدشے کے پیشِ نظر عدالت نے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات کی تحقیق کے لیے ایک کمیشن بھی بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کمیشن کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے میں پورا تعاون مہیا کرے۔
عالمی عدالت انصاف نے 28 مارچ کو جنوبی افریقہ کی درخواست کے باوجود غزہ میں جنگ بندی کا حکم نہیں دیا تھا مگر اِس دفعہ جنوبی افریقہ کی درخواست پر عدالت نے اسرائیل کو رفح میں نہ صرف فوری طور پر فوجی آپریشن روکنے کا حکم دیا بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بھی بھیجنے کا اعلان کیا۔
حماس‘ فلسطینی اتھارٹی اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ تاہم بعض حلقوں کی طرف سے عدم اطمینان اور مایوسی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے جو بلا جواز نہیں‘ کیونکہ عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ تو سنا دیا ہے مگر اس کے پاس اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کا اختیار نہیں ہے۔
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اقوام متحدہ کا ایک اہم ادارہ ہے، اور یہ عدالت اپنے فیصلے بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر کرتی ہے، جس میں فریقین افراد کے بجائے آزاد اور خودمختار ریاستیں ہوتی ہیں، جن پر کوئی ادارہ یا طاقت ان کی مرضی کے خلاف اپنی رائے یا فیصلہ مسلط نہیں کر سکتا، البتہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب کے تحت رکن ممالک کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں موثر اقدامات کا پابند کر سکتی ہے لیکن فلسطینیوں سمیت دنیا بھر کے عوام کو معلوم ہے کہ ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کردہ ہر ایسی تجویز کو امریکا ویٹو کر دے گا، جس کا مقصد اسرائیل کو اس کے جرائم کی سزا دینا ہو۔
اس کی تازہ مثال سلامتی کونسل میں پیش کردہ جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کے خلاف امریکی ویٹو کا استعمال ہے جس میں سلامتی کونسل سے فلسطینی اتھارٹی کو اقوام متحدہ کا فل ممبر بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پون صدی سے اسرائیل نہ صرف اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادوں بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد بار فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کا مرتکب چلا آ رہا ہے۔
چند روز قبل یورپ کے تین ملکوں ناروے، آئرلینڈ اور اسپین کی جانب سے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان اسرائیل کے لیے ایک بڑا سفارتی دھچکا ثابت ہوا کیونکہ ان تینوں ملکوں کے علاوہ متعدد دیگر یورپی ممالک اور آسٹریلیا بھی فلسطین کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔
11 مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 میں سے 139 ارکان کی حمایت سے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں سلامتی کونسل سے فلسطین کو ایک فل ممبر کی حیثیت سے عالمی ادارے کا رکن منتخب کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ فلسطین کو ایک ریاست کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں نمایندگی دینے کا سلسلہ 1974ء میں شروع ہوا تھا‘ جب جنرل اسمبلی کے ارکان کی بھاری اکثریت نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کو اقوام متحدہ میں ایک آبزرور کی حیثیت دینے کے حق میں قرارداد منظور کی تھی۔
نیتن یاہو کی قدامت پسند اور مذہبی انتہا پسند حکومت کے قیام کے بعد ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی کیونکہ نیتن یاہو نے نہ صرف ان مذاکرات کے انعقاد سے انکار کر دیا بلکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ جسے فلسطینی ریاست کا حصہ قرار دیا گیا تھا‘ میں نئی یہودی بستیاں آباد کرنا شروع کر دیں تاکہ ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کا قیام عملی طور پر ناممکن ہو جائے۔ اسرائیل کی طرف سے یہ سب اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیے جا رہے ہیں۔
عالمی طاقتیں اگر اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب سمجھ رہی ہیں اور اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو بھی اہمیت نہیں دے رہا تو اس کے خلاف نیٹو فوجیں استعمال کی جائیں اور فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے، فلسطین کے مقبوضہ علاقے خالی کروائے جائیں۔ اسرائیل اور فلسطین تنازع کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں لیکن ان کی یہ خواہش پون صدی گزرنے کے باوجود پوری نہیں ہوئی۔ دو ریاستی حل میں 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک مکمل خودمختار آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔
یہ حل ’’زمین کے بدلے امن ‘‘ کے اصول پر مبنی ہے، جس سے مخصوص زمینوں پر رعایتیں دے کر طویل مدتی امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1947 میں قرارداد 181 منظور کی جس میں فلسطین میں ایک آزاد ریاست کے قیام کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ فارمولا ہمیشہ بین الاقوامی برادری کا بنیادی اتفاق رائے رہا ہے۔اگرچہ فلسطین اور اسرائیل نے دو ریاستی حل کے اصول کو قبول کر لیا ہے لیکن اس کے عملی نفاذ میں اختلافات کی موجودگی کی وجہ سے امن عمل رک گیا ہے۔ چیلنجز کے باوجود، دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل حل ہے۔