اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 1.5 فیصد کمی کا اعلان کیا ہے، جس سے قرضوں پر منافع کی شرح 22 سے کم ہوکر 20.5 فیصد ہوگئی ہے۔ دوسری جانب وفاقی بجٹ کی آمد، آمد ہے۔ عوام اور بزنس کمیونٹی کی حکومت سے توقعات ہیں کہ آیندہ بجٹ میں بجلی، گیس کی قیمتیں، سیلز اور انکم ٹیکس کی شرح کم ہو اور انھیں ریلیف دیا جائے لیکن کیا موجودہ حالات میں ایسا ممکن ہوگا؟ اس سلسلے میں معاشی ماہرین اور کاروباری طبقہ مختلف قسم کے تخمینے اور اندازے لگا رہا ہے۔
بلاشبہ شرح سود میں کمی کے اعلان سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوںگے، شرح سود میں کمی سے مہنگائی میں کمی متوقع ہے۔ مونیٹری پالیسی میں نرمی کا کسی حد تک شرح نمو میں فرق پڑے گا، سکڑنے کے بجائے بڑھے گی۔ شرح سود میں کمی سے حکومت کو قرضوں کی واپسی میں بھی ریلیف ملے گا، لیکن یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جنرل سیلز ٹیکس، سیلز ٹیکس اور پٹرول پر بھی ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، یوں مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
حکومت کو توقع ہے کہ مالیاتی استحکام کے اقدامات کی وجہ سے مالیاتی خسارہ کم ہوجائے گا، ٹیکس ریونیو میں اضافہ اور سبسڈیز سمیت غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے پر توجہ دی جائے گی،اگلے سال گھریلو اوسط افراط زر 12 فیصد تک اعتدال پسند ہونے کی توقع ہے۔ ماہرین معیشت اور معاشی تجزیہ کا روں کا کہنا ہے کہ آیندہ وفاقی بجٹ میں ادویات، بجلی، پٹرول اور پینشنز پر ٹیکسز لگنے کی توقع ہے۔ بجٹ کے ساتھ ہی حکومت کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ قرض کے نئے پیکیج کے لیے مذاکرات بھی جاری ہیں۔ اس وقت یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ آئی ایم ایف کا نیا پروگرام کن شرائط کے ساتھ آئے گا اور اس کا پاکستانی معیشت پر کیا اثر پڑے گا۔
ستمبر 2023 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی جوکہ مئی 2024 میں کم ہو کر گیارہ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ سوال یہاں یہ کہ مہنگائی میں کمی کیوں ہوئی اور کیا اس میں مزید کمی بھی ہو گی؟ بیتے برس ستمبر میں مہنگائی بہت بڑھ گئی تھی یہاں تک کہ ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے،گو آئی ایم ایف کا اس وقت پروگرام آ چکا تھا مگر ڈالر بلیک مارکیٹ میں 350 روپے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ معیشت کے باقی مسائل بھی اس وقت اکٹھے ہوگئے تھے، سو اگر اس وقت سے آج کا موازنہ کیا جائے تو یقینا صورت حال بہتر ہے۔
اس وقت بنیادی طور پر مہنگائی میں جو کمی آ رہی ہے وہ عام آدمی کو اتنی محسوس نہیں ہو رہی ہوگی لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مہنگائی میں کمی آئی ہے۔ مہنگائی میں کمی کے جو عوامل ہیں ایک تو ایکسچینج ریٹ پر ایس آئی ایف سی ہے، ایجنسیز نے اہم کردار ادا کیا ہے، اسے روکنے میں مدد ملی ہے اور ایکسچینج ریٹ میں استحکام آیا ہے، کیا اسے برقرار رکھا جا سکے گا یا نہیں، یہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر منحصر ہے۔ دوسرا عالمی منڈی میں جو مختلف اشیا کی قیمتوں میں بہتری آئی ہے اس کے علاوہ اگر ہم زراعت کے شعبے میں ترقی دیکھیں جہاں ترقی گزشتہ برس منفی تھی مگر رواں برس مثبت ہوئی ہے وہ بنیادی طور پر زراعت کے شعبے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
اگلے سال کی پاکستان کی گروتھ انڈسٹریز اور سروسز سیکٹر پر منحصر ہوگی۔ اس سال جو کسانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اگلے سال ایگری کلچر سیکٹر کی گروتھ پر سیریس سوالات ہیں۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بھی منفی اثرات ہماری زراعت پر مرتب ہورہے ہیں۔
معاشی ماہرین کی رائے یہ بھی ہے کہ آیندہ مالیاتی بل میں بے تحاشہ ٹیکس عائد ہونے کی وجہ سے امیر اور غریب کی تقسیم مزید بڑھے گی۔ چند ہاتھوں میں دولت کا اور زیادہ ارتکاز ہو گا، جب کہ غریب 15 فیصد پیشگی انکم ٹیکس کے علاوہ، پانچ منٹ سے زیادہ موبائل فون پر بات کرنے پر فیڈرل ایکسائز ٹیکس ادا کرتے رہیں گے۔ آمدنی اور دولت میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے اور رجعت پسند محصولات اس کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ موجودہ ٹیکس نظام میں ریاستی اشرافیہ کو ہر طرح کی ٹیکس فری سہولتیں ملتی ہیں۔ آئین کے تحت ریاست سب کے لیے مفت تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کا بندوبست کرنے کی پابند ہے۔
وفاقی اور صوبائی تمام حکومتیں اپنی آئینی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہی ہیں اور صحت اور تعلیم کے نام پر عوام کو لوٹنے کے لیے پرائیویٹ پارٹیوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ان تجارتی منصوبوں پر ٹیکس لگانے اور سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی بہتری کے لیے رقم خرچ کرنے کی کوئی پالیسی حکومت کے زیر غور نہیں ہے۔ ان شعبوں کے لیے مختص کیے گئے معمولی فنڈز کو افسران ضایع کر دیتے ہیں، طالب علموں اور مریضوں کو سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں میں امتیازی سلوک ملتا ہے۔ دوسری طرف پرتعیش کلب، گولف کورسز اور ریسٹ ہاؤس جو بالائی طبقے کی خدمت کرتے ہیں عوامی فنڈز سے گرانٹ وصول کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کس طرح ٹیکس دہندگان کے پیسے پر ترقی کرتے ہیں اور غیر ملکی فنڈنگ کا استحصال کرتے ہیں، یہ ایک کھلا راز ہے۔
ہمارے یہاں اس اصول کی پیروی کی جارہی ہے کہ ’’مزید ٹیکس‘‘ کی ضرورت ہے! کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ ٹیکس کس لیے؟ 60 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کی فکر نہیں ہے۔ اشرافیہ اپنے سائز کے مطابق ٹیکس نہیں دے رہی ، بلکہ الٹا سرکاری خزانے سے مراعات وصول کررہی ہے۔ وسائل کے اس بے تحاشہ ضیاع نے امیروں اور طاقتوروں پر ٹیکس نہ لگانے کے ساتھ، پاکستان کے لیے مختلف قسم کے بحرانوں، آبادی کی اکثریت کے لیے انتہائی غربت، بے روزگاری، سست اقتصادی ترقی، قرضوں کے جال، ناقص انفرا اسٹرکچر، خوفناک مالیاتی اور تجارتی خسارے کو جنم دیا ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور کرنٹ اکاؤنٹ کا بڑا خسارہ۔
ملک میں پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں، جن کے پاس روزگار ہیں، ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں، درمیانہ طبقہ پھیلنے کے بجائے سکڑ رہا ہے جب کہ امیر اور مراعات یافتہ طبقے کا سائز بڑھ رہا ہے، پاکستانی امرا کے ترقی یافتہ مغربی ممالک کے پوش اور مہنگے علاقوں میں اپنے گھر ہیں، مہنگی ترین کاریں ہیں، پاکستان میں بھی ان کے محلات ہیں، نوکر اور ذاتی محافظ ہیں، لگژری کاریں ہیں، مگر ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب دنیا میں کم ترین ملکوں کی فہرست میں ہے۔ پچھلے 25 سالوں میں جی ڈی پی کا تقریباً 8 سے 10 فیصد۔ اس کے باوجود حکومت کو غیر دستاویزی معیشت پر ٹیکس لگانے کی کوئی پروا نہیں ہے۔
بجٹ میں محروم اور پسماندہ علاقوں کو ترقی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی کا ایسا انفرااسٹرکچر بنانے کی ضرورت ہے کہ پسماندہ علاقوں میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقعے پیدا ہوں، پسماندہ علاقوں میں ٹیکس فری انڈسٹریل زونز قائم کیے جائیں۔ زراعت کا جو حشر کیا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، ہمارا کسان آج قرض لے لے کر تباہ و برباد ہو چکا ہے، حکومت نے مدد کیا کرنا تھی الٹا گندم کی پیداواری سے نصف قیمت بھی اُسے وصول نہیں ہو رہی، وفاقی بجٹ کا حجم تقریباً 18 ہزار ارب روپے بتایا جارہا ہے،
بجٹ میں 3 ہزار ارب روپے سے زائد اضافی ٹیکسز عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بھی 18 سے 19 فیصد ہونے جا رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملک کا نظام چلانے کے لیے ٹیکس ضروری سمجھے جاتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں ادارے بہت زیادہ ٹیکس دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے، تمام ٹیکس غریبوں پر لگائے جاتے ہیں، صنعتوں پر ٹیکس کا معاملہ یہ ہے کہ صنعتکار پہلے توں ذاتی و سیاسی اثر رسوخ رکھنے کی وجہ سے ٹیکس نہیں دیتے، اگر کوئی صنعت کار 10 فیصد ٹیکس دے بھی دیتا ہے تو وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ کر دیتا ہے جو کہ لامحالہ غریب صارفین کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔
نئے آنے والے بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات پر جی ایس ٹی عائد ہو گی، گویا پاکستان میں غریب کے لیے زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر بنایا جا رہا ہے۔ کسی بھی بجٹ کو اس وقت تک اچھا نہیں کہا جا سکتا جب تک اس کے ثمرات غریب عوام تک نہ پہنچیں اور غربت میں کمی نہ ہو۔