اللہ رب العزت نے ہر عبادت کے لیے قدم قدم پر کرم و فضل، رحمت وعنایت اور اجر وثواب کے وعدے کیے ہیں۔ نمازہو، زکوٰۃ ہو، روزہ ہو، اعتکاف ہو، غرض کہ کوئی بھی عبادت ہو، سب پر جنت اور جنت کی بیش بہا نعمتوں کے وعدے ہیں لیکن تمام عبادات میں ارکان اسلام میں پانچویں نمبر پر ’’حج بیت اللہ‘‘ کی شان سب سے نرالی ہے۔ حج گویا دبستانِ عبدیت کا آخری نصاب ہے، جس کی تکمیل پر بارگاہِ عالی سے رضا و خوشنودی کی آخری سند عطا کی جاتی ہے۔ حج کے مقاصد بلند اور اہداف عظیم ہیں۔
حج کے ایام شروع ہوچکے ہیں، دنیا کے کونے کونے سے ہزاروں عازمین حج‘ حج کا ترانہ یعنی لبیک پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچ رہے ہیں، کچھ راستے میں ہیں اور کچھ جانے کے لیے تیار ہیں۔ جلد ہی لاکھوں حجاج کرام اسلام کے پانچویں اہم رکن کی ادائیگی کے لیے دنیاوی ظاہری زیب وزینت کو چھوڑکر اللہ جل شانہ کے ساتھ والہانہ محبت میں مشاعر مقدسہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ پہنچ جائیں گے اور وہاں حضور اکرم ﷺکے بتائے ہوئے طریقے پر حج کی ادائیگی کرکے اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانیوں کے ساتھ جوڑیں گے۔
حج بیت اللہ اس لحاظ سے بڑی نمایاں عبادت ہے کہ یہ بیک وقت روحانی، مالی اور بدنی تینوں پہلوؤں پر مشتمل ہے، یہ خصوصیت کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔ حج کی فرضیت کے بعد ادائیگی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ جو شخص حج فرض ہونے کے باوجود حج نہیں کرتا، سفرِ حج کی تیاریاں نہیں کرتا وہ نہایت نقصان میں ہے۔ ترمذی شریف میں مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہ عنہ سے روایت ہے: اللہ پاک کے آخری نبی، رسولِ ہاشمی، مْحَمَّد عربیﷺ نے فرمایا: جو بندہ سواری اور سفر خرچ کا مالک ہو جس کے ذریعے وہ مکہ مکرمہ تک پہنچ سکے، اس کے باوجود اگر وہ حج نہ کرے تو چاہے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر”۔
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کے لیے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہیں کیا تو وہ (پاک ہوکر) ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز (پاک تھا)۔ (بخاری ومسلم)
حضرت عمر فاروقؓ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: پے درپے حج وعمرے کیا کرو۔ بے شک، یہ دونوں (حج وعمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ابن ماجہ)
حضرت عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجیے، تاکہ میں آپﷺ سے بیعت کروں۔ نبی اکرمﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا، عمرو کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا ( گزشتہ) گناہوں کی مغفرت کی۔ تب آپﷺ نے فرمایا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلام (میں داخل ہونا) گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے، ہجرت گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ (صحیح مسلم)
اللہ رب العزت کی اس عظیم عبادت کا مقصد فرد کی اصلاح اور اصلاح معاشرہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں پر بے نیاز ہے۔ بندوں کی عبادت اس کو فائدہ نہیں پہنچاتی اور نافرمانوں کی نافرمانی اس کو نقصان نہیں پہنچاتی حکمت کی ضرورت تھی کہ نسل انسانی کو زمین پر جانشین مقرر کیا جائے تاکہ وہ اس میں زندگی بسر کر سکے اور سب سے زیادہ مناسب طرز زندگی اور ہم آہنگی کے ساتھ حج کا حکم خدا تعالیٰ نے اپنے وفادار اور صاحب استطاعت بندوں کو دیا ہے۔
حج اور اس کے مناسک میں بہت سے فائدے ہیں۔ احرام باندھنے اور سلے ہوئے لباس کو ترک کرنے اور معمول سے ہٹ کر انسان کو عقل و فہم کے ساتھ حجاج کے درمیان کفایت شعاری اور ان کے درمیان فرق کے غائب ہونے کا احساس دلاتا ہے۔
نہ کوئی امیر اور نہ ہی غریب، بلکہ سب کنگھی کے دانتوں کی طرح ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں سوائے تقویٰ کے۔ اور خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ متقی ہے۔ حجاج کرام کا اپنے رب سے مدد مانگنا اور پھر کعبہ کا طواف کرنا، جو لوگوں کے لیے پہلا گھر ہے اور یہ وہ بابرکت گھر ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہدایت اور سلامتی بنایا۔ حج بظاہر ایک فریضہ ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسا سفر ہے جو اپنی ذات سے اللہ رب العزت کی طرف سفر ہے یہ ایک تربیتی سفر بھی ہے اور سفر عشق بھی ہے۔ حج کے مناسک کی ادائیگی میں ایک راز یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو نفس سے ناطہ توڑ کرکے اللہ رب العزت کی محبت کے سفر میں ڈبو دیتا ہے اور اللہ کی ذات سے ایسا تعلق بنا دیتا ہے کہ انسان کی اپنی مرضی ہی نہیں رہتی بلکہ اللہ کی مرضی/ مشیت ہی اس کی مرضی و رضا ہوجاتی ہے۔
حج ابتداء سے لے کر انتہا تک قدم قدم یہ اللہ کے محبوب و مکرم بندوں کی اداؤں کو اداکرنے کا نام بھی ہے۔ گویا حاجی زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں کہیں پر خلیل اللہ کی آزمائشوں میں کامیابی اور دعاؤں کے ثمرات نظرآتے ہیں۔ اس میں کہیں پر ذبیح اللہ کی وفاؤں اور فرمانبرداری کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ کہیں پر حبیب اللہ کی سنت کو ادا کرنے کے مواقع میسرآتے ہیں ہر طرف مصطفیﷺ کی ادا کردہ تکبیر بلند ہوتی ہے۔
“لبیک اللہم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک ”
گویا حج گھر سے لے کر بیت اللہ تک منیٰ سے لے کر عرفات و مزدلفہ تک صفا و مروہ سے لے کر رمی و جمعرات تک حرم مکہ سے لے کر مدینہ طیبہ کی گلیوں تک سوز وجنوں کے نظارے اور عشق و مستی کے چمکارے نظر آتے ہیں۔ حج ادب و تعظیم اور عشق و معرفت کا عملی نمونہ ہے۔ اس میں ایسی ایسی حکمتیں ظاہر ہوتی ہیں کہ رب کائنات کے نظام تربیت سے عقل حیران رہ جاتی ہیں۔ حج کے دوران تمام کام خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا کام ہی کیوں نہ ہو رب کریم کی عنایتوں اور حکمتوں سے پُر ہے۔ ہر ہر قدم میں حکمتیں اور تربیت کا سامان موجود ہے۔
حج ادا کرنے کے بعد اگلے روز عید الضحیٰ کی نماز ادا کی جاتی ہے حجاج ہی نہیں روئے زمیں پر بسنے والا ہر صاحب استطاعت مسلمان سنت ابراہیمی کو زندہ کرتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں جانور ذبح کرتے ہیں۔ یہاں ایک بات ضرور ذکر کرنا چاہوں گا۔ ایک روشن خیال طبقہ ہمیشہ اسلام اور اس کے متعدد احکامات پر تنقید میں مصروف عمل رہتا ہے، بلاشبہ معترضین کی اچھی خاصی تعداد ہر دور میں رہی ہے مگر ان کی بے سروپا اور لایعنی باتوں اور اعتراضات کو ہر دور میں علمائے حق نے قرآن و سنت کی روشنی میں ہی ایسے جوابات دیے ہیں کہ وہ منہ بسور کر رہ جاتے ہیں۔ ہر سال حج اور قربانی کے خلاف بھی آوازیں اٹھتی ہیں، کہ حج اور قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے یہ پیسہ اپنے کسی غریب رشتے دار کو دے دیں۔
یاد رکھیں ہر صاحب استطاعت مسلمان پر حج فرض ہے، اسی طرح جس شخص پر قربانی واجب ہو اس کے لیے قربانی چھوڑ کر قربانی کی رقم کسی فقیر کو دے دینا شرعاً درست نہیں ہے، اس طرح کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوگی اور ایسے شخص کو اگرچہ صدقہ کرنے کا ثواب تو مل جائے گا، لیکن واجب قربانی چھوڑنے پر گناہ گار ہوگا، قربانی کرنا ایک مستقل واجب عبادت ہے، اور غریب کی مدد کرنا ایک دوسری عبادت ہے جوکہ نفل ہے اور نفل عبادت کو بنیاد بنا کر کسی دوسری واجب عبادت کو چھوڑنا کوئی معقول بات نہیں، دونوں نیکیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن اگر ممکن نہ ہو تو واجب کو ترجیح دینا چاہیے۔ نام نہاد روشن خیالوں کے بہکاوے میں آکر یا ان کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنا ایمان خراب مت کریں۔